كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : لاَ يَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ بِلَالًا كَانَ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ لَا يُؤَذِّنُ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ قَالَ الْقَاسِمُ وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ أَذَانِهِمَا إِلَّا أَنْ يَرْقَى ذَا وَيَنْزِلَ ذَا
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ( عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہی روایت ) قاسم بن محمدسے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ بلال رضی اللہ عنہ کچھ رات رہے سے اذان دے دیا کرتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان نہ دیں تم کھتے پیتے رہو کیوں کہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں دیتے۔ قاسم نے بیان کیا کہ دونوں ( بلال اور ام مکتوم رضی اللہ عنہما ) کی اذان کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک چڑھتے تو دوسرے اترتے۔
تشریح :
علامہ قسطلانی نے نقل کیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سحری بہت قلیل ہوتی تھی، ایک آدھ کھجور یا ایک آدھ لقمہ، اس لیے یہ قلیل فاصلہ بتلایا گیا۔ حدیث ہذا میں صاف مذکور ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ صبح صادق سے پہلے اذان دیا کرتے تھے یہ ان کی سحری کی اذان ہوتی تھی اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ فجر کی اذان اس وقت دیتے جب لوگ ان سے کہتے کہ فجر ہو گئی ہے کیوں کہ وہ خود نابینا تھے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں و المعنی فی الجمیع ان بلالا کان یوذن قبل الفجر ثم یتربص بعد للدعاءو نحوہ ثم یرقب الفجر فاذا قارب طلوعہ نزل فاخبر ابن ام مکتوم الخ یعنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر سے قبل اذان دے کر اس جگہ دعاءکے لیے ٹھہرے رہتے اور فجر کا انتظار کرتے جب طلوع فجر قریب ہوتی تو وہاں سے نیچے اتر کر ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اطلا ع کرتے اور وہ پھر فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔ ہر دو کی اذان کے درمیان قلیل فاصلہ کا مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے آیت قرآنیہ حتی یتبین لکم الخیط الابیض ( البقرۃ : 187 ) سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صبح صادق نمایاں ہوجانے تک سحری کھانے کی اجازت ہے، جو لوگ رات رہتے ہوئے سحری کھالیتے ہیں یہ سنت کے خلاف ہے۔ سنت کے مطابق سحری وہی ہے کہ اس سے فارغ ہونے اور فجر کی نماز شروع کرنے کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جتنا کہ پچاس آیات کے پڑھنے میں وقت صرف ہوتا ہے۔ طلوع فجر کے بعد سحری کھانا جائز نہیں۔
علامہ قسطلانی نے نقل کیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سحری بہت قلیل ہوتی تھی، ایک آدھ کھجور یا ایک آدھ لقمہ، اس لیے یہ قلیل فاصلہ بتلایا گیا۔ حدیث ہذا میں صاف مذکور ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ صبح صادق سے پہلے اذان دیا کرتے تھے یہ ان کی سحری کی اذان ہوتی تھی اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ فجر کی اذان اس وقت دیتے جب لوگ ان سے کہتے کہ فجر ہو گئی ہے کیوں کہ وہ خود نابینا تھے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں و المعنی فی الجمیع ان بلالا کان یوذن قبل الفجر ثم یتربص بعد للدعاءو نحوہ ثم یرقب الفجر فاذا قارب طلوعہ نزل فاخبر ابن ام مکتوم الخ یعنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر سے قبل اذان دے کر اس جگہ دعاءکے لیے ٹھہرے رہتے اور فجر کا انتظار کرتے جب طلوع فجر قریب ہوتی تو وہاں سے نیچے اتر کر ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اطلا ع کرتے اور وہ پھر فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔ ہر دو کی اذان کے درمیان قلیل فاصلہ کا مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے آیت قرآنیہ حتی یتبین لکم الخیط الابیض ( البقرۃ : 187 ) سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صبح صادق نمایاں ہوجانے تک سحری کھانے کی اجازت ہے، جو لوگ رات رہتے ہوئے سحری کھالیتے ہیں یہ سنت کے خلاف ہے۔ سنت کے مطابق سحری وہی ہے کہ اس سے فارغ ہونے اور فجر کی نماز شروع کرنے کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جتنا کہ پچاس آیات کے پڑھنے میں وقت صرف ہوتا ہے۔ طلوع فجر کے بعد سحری کھانا جائز نہیں۔