‌صحيح البخاري - حدیث 1903

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ، وَالعَمَلَ بِهِ فِي الصَّوْمِ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1903

کتاب: روزے کے مسائل کا بیان باب : جو شخص رمضان میں جھوٹ بولنا اور دغابازی کرنا نہ چھوڑے ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد کیسان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔
تشریح : معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں جھوٹ اور دغا بازی نہ چھوڑنے والا انسان روزہ کی توہین کرتا ہے اس لیے اللہ کے یہاں اس کے روزے کا کوئی وزن نہیں قال البیضاوی لیس المقصود من شرعیۃ الصوم نفس الجوع و العطش بل ما یتبعہ من کسر الشہوات و تطریح النفس الامارۃ للنفس المطمئنۃ فاذا لم یحصل ذلک لا ینظر اللہ الیہ نظر القبول ( فتح ) یعنی روزہ سے محض بھوک و پیاس مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ بھی ہے کہ شہوات نفسانی کو ترک کیا جائے، نفس امارہ کو اطاعت پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ نفس مطمئنہ کے پیچھے لگ سکے۔ اگر یہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے تو اللہ پاک اس روزہ پر نظر قبول نہیں فرمائے گا۔ روزہ دار کے منہ کی بدبو خدا کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ عبادت کے پسندیدہ ہونے سے اس کا اثر بھی پسندیدہ ہوجاتا ہے اور عالم مثال میں بجائے عبادت کے وہ اثر متمثل ہوجاتا ہے، ا سی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سبب سے ملائکہ کو خوشی پیدا ہونے اور اللہ پاک کی رضا مندی کو ایک پلہ میں اور بنی آدم کو مشک کے سونگھنے پر جو سرور ہوحاصل ہوتا ہے اس کو ایک پلہ میں رکھا تاکہ یہ رمز غیبی ان کے لیے ظاہر ہو جائے۔ ( حجۃ اللہ البالغہ ) معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں جھوٹ اور دغا بازی نہ چھوڑنے والا انسان روزہ کی توہین کرتا ہے اس لیے اللہ کے یہاں اس کے روزے کا کوئی وزن نہیں قال البیضاوی لیس المقصود من شرعیۃ الصوم نفس الجوع و العطش بل ما یتبعہ من کسر الشہوات و تطریح النفس الامارۃ للنفس المطمئنۃ فاذا لم یحصل ذلک لا ینظر اللہ الیہ نظر القبول ( فتح ) یعنی روزہ سے محض بھوک و پیاس مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ بھی ہے کہ شہوات نفسانی کو ترک کیا جائے، نفس امارہ کو اطاعت پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ نفس مطمئنہ کے پیچھے لگ سکے۔ اگر یہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے تو اللہ پاک اس روزہ پر نظر قبول نہیں فرمائے گا۔ روزہ دار کے منہ کی بدبو خدا کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ عبادت کے پسندیدہ ہونے سے اس کا اثر بھی پسندیدہ ہوجاتا ہے اور عالم مثال میں بجائے عبادت کے وہ اثر متمثل ہوجاتا ہے، ا سی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سبب سے ملائکہ کو خوشی پیدا ہونے اور اللہ پاک کی رضا مندی کو ایک پلہ میں اور بنی آدم کو مشک کے سونگھنے پر جو سرور ہوحاصل ہوتا ہے اس کو ایک پلہ میں رکھا تاکہ یہ رمز غیبی ان کے لیے ظاہر ہو جائے۔ ( حجۃ اللہ البالغہ )