‌صحيح البخاري - حدیث 19

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ: مِنَ الدِّينِ الفِرَارُ مِنَ الفِتَنِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ المُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الجِبَالِ وَمَوَاقِعَ القَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الفِتَنِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 19

کتاب: ایمان کے بیان میں باب: اس بیان میں کہ فتنوں سے دور بھاگنا دین میں شامل ہے م سے ( اس حدیث کو ) عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے اسے مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا، انھوں نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی صعصعہ سے، انھوں نے اپنے باپ ( عبداللہ رحمہ اللہ ) سے، وہ ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا ( سب سے ) عمدہ مال ( اس کی بکریاں ہوں گی )۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا۔
تشریح : مقصد حدیث یہ ہے کہ جب فتنہ وفساد اتنا بڑھ جائے کہ اس کی اصلاح بظاہر ناممکن نظر آنے لگے توایسے وقت میں سب سے یکسوئی بہترہے۔ فتنہ میں فسق وفجور کی زیادتی، سیاسی حالات اور ملکی انتظامات کی بدعنوانی، یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ جن کی وجہ سے مرد مومن کے لیے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت دشوار ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں اگر محض دین کی حفاظت کے جذبے سے آدمی کسی تنہائی کی جگہ چلاجائے۔ جہاں فتنہ وفساد سے بچ سکے تو یہ بھی دین ہی کی بات ہے اور اس پر بھی آدمی کو ثواب ملے گا۔ حضرت امام کا مقصدیہی ہے کہ اپنے دین کوبچانے کے لیے سب سے یکسوئی اختیار کرنے کا عمل بھی ایمان میں داخل ہے۔ جو لوگ اعمال صالحہ کوایمان سے جداقرار دیتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں ہے۔ بکری کا ذکر اس لیے کیاگیا کہ اس پر انسان آسانی سے قابو پالیتا ہے اور یہ انسان کے لیے مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ یہ بہت ہی غریب اور مسکین جانورہے۔ اس کو جنت کے چوپایوں میں سے کہا گیا ہے۔ اس سے انسان کونفع بھی بہت ہے۔ اس کا دودھ بہت مفید ہے۔ جس کے استعمال سے طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیز اس کی نسل بھی بہت بڑھتی ہے۔ اس کی خوراک کے لیے بھی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جنگلوں میں اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے۔ بہ آسانی پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتی ہے۔ اس لیے فتنے فساد کے وقت پہاڑوں جنگلوں میں تنہائی اختیار کرکے اس مفید ترین جانور کی پر ورش سے گذران معیشت کرنا مناسب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور پیشین گوئی فرمایا تھا۔ چنانچہ تاریخ میں بہت پر فتن زمانے آئے اور کتنے ہی بندگان الٰہی نے اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لیے آبادی سے ویرانوں کواختیارکیا۔ اس لیے یہ عمل بھی ایمان میں داخل ہے کیونکہ اس سے ایمان واسلام کی حفاظت مقصود ہے۔ مقصد حدیث یہ ہے کہ جب فتنہ وفساد اتنا بڑھ جائے کہ اس کی اصلاح بظاہر ناممکن نظر آنے لگے توایسے وقت میں سب سے یکسوئی بہترہے۔ فتنہ میں فسق وفجور کی زیادتی، سیاسی حالات اور ملکی انتظامات کی بدعنوانی، یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ جن کی وجہ سے مرد مومن کے لیے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت دشوار ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں اگر محض دین کی حفاظت کے جذبے سے آدمی کسی تنہائی کی جگہ چلاجائے۔ جہاں فتنہ وفساد سے بچ سکے تو یہ بھی دین ہی کی بات ہے اور اس پر بھی آدمی کو ثواب ملے گا۔ حضرت امام کا مقصدیہی ہے کہ اپنے دین کوبچانے کے لیے سب سے یکسوئی اختیار کرنے کا عمل بھی ایمان میں داخل ہے۔ جو لوگ اعمال صالحہ کوایمان سے جداقرار دیتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں ہے۔ بکری کا ذکر اس لیے کیاگیا کہ اس پر انسان آسانی سے قابو پالیتا ہے اور یہ انسان کے لیے مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ یہ بہت ہی غریب اور مسکین جانورہے۔ اس کو جنت کے چوپایوں میں سے کہا گیا ہے۔ اس سے انسان کونفع بھی بہت ہے۔ اس کا دودھ بہت مفید ہے۔ جس کے استعمال سے طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیز اس کی نسل بھی بہت بڑھتی ہے۔ اس کی خوراک کے لیے بھی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جنگلوں میں اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے۔ بہ آسانی پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتی ہے۔ اس لیے فتنے فساد کے وقت پہاڑوں جنگلوں میں تنہائی اختیار کرکے اس مفید ترین جانور کی پر ورش سے گذران معیشت کرنا مناسب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور پیشین گوئی فرمایا تھا۔ چنانچہ تاریخ میں بہت پر فتن زمانے آئے اور کتنے ہی بندگان الٰہی نے اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لیے آبادی سے ویرانوں کواختیارکیا۔ اس لیے یہ عمل بھی ایمان میں داخل ہے کیونکہ اس سے ایمان واسلام کی حفاظت مقصود ہے۔