كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ: الصَّوْمُ كَفَّارَةٌ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا جَامِعٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَنْ يَحْفَظُ حَدِيثًا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ قَالَ حُذَيْفَةُ أَنَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ قَالَ لَيْسَ أَسْأَلُ عَنْ ذِهِ إِنَّمَا أَسْأَلُ عَنْ الَّتِي تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ قَالَ وَإِنَّ دُونَ ذَلِكَ بَابًا مُغْلَقًا قَالَ فَيُفْتَحُ أَوْ يُكْسَرُ قَالَ يُكْسَرُ قَالَ ذَاكَ أَجْدَرُ أَنْ لَا يُغْلَقَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ سَلْهُ أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنْ الْبَابُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ نَعَمْ كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
باب : روزہ گناہوں کا کفارہ ہوتاہے
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے جامع بن راشد نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا فتنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کسی کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا میری مراد تو اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گا۔ اس پر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ (یعنی آپ کے دور میں وہ فتنہ شروع نہیں ہوگا ) عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ دروازہ کھل جائے گا یا توڑ دیا جائے گا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تو قیامت تک کبھی بند نہ ہو پائے گا۔ ہم نے مسروق سے کہا آپ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھئے کہ کیا عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ وہ دروازہ کون ہے، چنانچہ مسروق نے پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں! بالکل اس طرح (انہیں علم تھا ) جیسے رات کے بعد دن کے آنے کا علم ہوتاہے۔
تشریح :
اس حدیث میں نماز کے ساتھ روزہ کو بھی گناہوں کا کفارہ کہا گیا ہے یہی باب کا مقصد ہے، یہاں جن فتنوں کی طرف اشارہ ہے ان سے وہ فتنے مراد ہیں جو خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئے تھے اور آج تک ان فتنوں کے خطرناک اثرات امت میں افتراق کی شکل میں باقی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی فراست کی بنا پر جو کچھ فرمایا تھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ اللہم صل وسلم علی حبیبک و علی صاحبہ و اغفرلنا و ارحمنا یا ارحم الراحمین۔
اس حدیث میں نماز کے ساتھ روزہ کو بھی گناہوں کا کفارہ کہا گیا ہے یہی باب کا مقصد ہے، یہاں جن فتنوں کی طرف اشارہ ہے ان سے وہ فتنے مراد ہیں جو خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئے تھے اور آج تک ان فتنوں کے خطرناک اثرات امت میں افتراق کی شکل میں باقی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی فراست کی بنا پر جو کچھ فرمایا تھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ اللہم صل وسلم علی حبیبک و علی صاحبہ و اغفرلنا و ارحمنا یا ارحم الراحمین۔