كِتَابُ فَضَائِلِ المَدِينَةِ بَابُ كَرَاهِيَةِ النَّبِيِّ ﷺ أَنْ تُعْرَى المَدِينَةُ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَامٍ أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَرَادَ بَنُو سَلِمَةَ أَنْ يَتَحَوَّلُوا إِلَى قُرْبِ الْمَسْجِدِ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُعْرَى الْمَدِينَةُ وَقَالَ يَا بَنِي سَلِمَةَ أَلَا تَحْتَسِبُونَ آثَارَكُمْ فَأَقَامُوا
کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
باب: مدینہ کا ویران کرنا نبی اکرم ﷺ کو ناگوار تھا
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں مروان بن معاویہ فزاری نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے خبر دی اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بنو سلمہ نے چاہا کہ اپنے دور والے مکانات چھوڑ کر مسجد نبوی سے قریب اقامت اختیار کرلےں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند نہ کیا کہ مدینہ کے کسی حصہ سے بھی رہائش ترک کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بنو سلمہ ! تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے، چنانچہ بنوسلمہ نے (اپنی اصلی اقامت گاہ میں ) رہائش باقی رکھی۔
تشریح :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ مدینہ کی آبادی سب طرف سے قائم رہے اور اس میں ترقی ہوتی جائے تاکہ کافروں اور منافقوں پر رعب پڑے، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ مدینہ کی اقامت ترک کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے بلکہ یہ اس مسلمان کی عین سعادت ہے جس کو وہاں اطمینان کے ساتھ سکونت مل جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ مدینہ کی آبادی سب طرف سے قائم رہے اور اس میں ترقی ہوتی جائے تاکہ کافروں اور منافقوں پر رعب پڑے، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ مدینہ کی اقامت ترک کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے بلکہ یہ اس مسلمان کی عین سعادت ہے جس کو وہاں اطمینان کے ساتھ سکونت مل جائے۔