کِتَابُ جَزَاءِ الصَّيْدِ بَابُ حَجِّ المَرْأَةِ عَنِ الرَّجُلِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ الْفَضْلُ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ فَقَالَتْ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ
کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
باب : عورت کا مرد کی طرف سے حج کرنا
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب زہری نے، ان سے سلیمان بن یسار نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی۔ فضل رضی اللہ عنہ اس کو دیکھنے لگے اور وہ فضل رضی اللہ عنہ کو دیکھنے لگی۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، اس عورت نے کہا کہ اللہ کا فریضہ (حج ) نے میرے بوڑھے والد کو اس حالت میں پالیا ہے کہ وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں، آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
تشریح :
تشریح : اس عورت کا نام معلوم نہیں ہوا اس حدیث سے یہ نکلا کہ زندہ آدمی کی طرف سے بھی اگر وہ معذور ہو جائے دوسرا آدمی حج کرسکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ایسا حج بدل مر د کی طرف سے عورت بھی کرسکتی ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فی ہذا الحدیث من الفوائد جواز الحج من الغیر و استدل الکوفیون بعمومہ علی جواز صحۃ حج من لم یحج نیابۃ عن غیرہ و خالفہم الجمہورفخصوہ بمن حج عن نفسہ واستدلوا بما فی السنن و صحیح ابن خزیمۃ و غیرہ من حدیث ابن عباس ایضا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رای رجلا یلبی عن شبرمۃ فقال احججت عن نفسک فقال لا، قال : ہذہ من نفسک ثم احجج عن شبرمۃ الخ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ غیر کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور کوفیوں نے اس کے عموم سے دلیل لی ہے کہ نیابت میں اس کا حج بھی درست ہے جس نے پہلے اپنا حج نہ کیا ہو اورجمہور نے ان کے خلاف کہا ہے انہوں نے اس کے لیے اسی کو خاص کیا ہے جو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہو اور انہوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جسے اصحاب سنن اور ابن خزیمہ وغیرہم نے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شبرمہ کون ہے اس نے اس کو بتلایا، پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہے، اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے اپنا حج کر پھر شبرمہ کا حج کرنا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل جس سے کرایا جائے ضروری ہے کہ وہ شخص پہلے اپنا حج کرچکا ہو حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فیہ ان من مات و علیہ حج وجب علی ولیہ ان یجہز من یحج عنہ من راس مالہ کما ان علیہ قضاءدیونہ فقد اجمعوا علی ان دین الادمی من راس المال فکذلک ما شبہ بہ فی القضاءو یلتحق بالحج کل حق ثبت فی ذمتہ من کفارۃو نذر و زکوۃ او غیر ذلک الخ ( فتح الباری ) یعنی اس میں یہ بھی ہے کہ جو شخص وفات پائے اور اس پر حج واجب ہو تو وارثوں کا فرض ہے کہ اس کے اصل مال سے کسی دوسرے کو حج بدل کے لیے تیار کرکے بھیجیں۔ یہ ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ اس کے قرض کی ادائیگی ضروری ہے اور کفارہ اور نذر اور زکوۃ وغیرہ کی جواس کے ذمہ واجب ہو۔
تشریح : اس عورت کا نام معلوم نہیں ہوا اس حدیث سے یہ نکلا کہ زندہ آدمی کی طرف سے بھی اگر وہ معذور ہو جائے دوسرا آدمی حج کرسکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ایسا حج بدل مر د کی طرف سے عورت بھی کرسکتی ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فی ہذا الحدیث من الفوائد جواز الحج من الغیر و استدل الکوفیون بعمومہ علی جواز صحۃ حج من لم یحج نیابۃ عن غیرہ و خالفہم الجمہورفخصوہ بمن حج عن نفسہ واستدلوا بما فی السنن و صحیح ابن خزیمۃ و غیرہ من حدیث ابن عباس ایضا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رای رجلا یلبی عن شبرمۃ فقال احججت عن نفسک فقال لا، قال : ہذہ من نفسک ثم احجج عن شبرمۃ الخ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ غیر کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور کوفیوں نے اس کے عموم سے دلیل لی ہے کہ نیابت میں اس کا حج بھی درست ہے جس نے پہلے اپنا حج نہ کیا ہو اورجمہور نے ان کے خلاف کہا ہے انہوں نے اس کے لیے اسی کو خاص کیا ہے جو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہو اور انہوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جسے اصحاب سنن اور ابن خزیمہ وغیرہم نے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شبرمہ کون ہے اس نے اس کو بتلایا، پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہے، اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے اپنا حج کر پھر شبرمہ کا حج کرنا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل جس سے کرایا جائے ضروری ہے کہ وہ شخص پہلے اپنا حج کرچکا ہو حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فیہ ان من مات و علیہ حج وجب علی ولیہ ان یجہز من یحج عنہ من راس مالہ کما ان علیہ قضاءدیونہ فقد اجمعوا علی ان دین الادمی من راس المال فکذلک ما شبہ بہ فی القضاءو یلتحق بالحج کل حق ثبت فی ذمتہ من کفارۃو نذر و زکوۃ او غیر ذلک الخ ( فتح الباری ) یعنی اس میں یہ بھی ہے کہ جو شخص وفات پائے اور اس پر حج واجب ہو تو وارثوں کا فرض ہے کہ اس کے اصل مال سے کسی دوسرے کو حج بدل کے لیے تیار کرکے بھیجیں۔ یہ ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ اس کے قرض کی ادائیگی ضروری ہے اور کفارہ اور نذر اور زکوۃ وغیرہ کی جواس کے ذمہ واجب ہو۔