‌صحيح البخاري - حدیث 1816

کِتَابُ المُحْصَرِ بَابٌ: الإِطْعَامُ فِي الفِدْيَةِ نِصْفُ صَاعٍ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَسَأَلْتُهُ عَنْ الْفِدْيَةِ فَقَالَ نَزَلَتْ فِيَّ خَاصَّةً وَهِيَ لَكُمْ عَامَّةً حُمِلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي فَقَالَ مَا كُنْتُ أُرَى الْوَجَعَ بَلَغَ بِكَ مَا أَرَى أَوْ مَا كُنْتُ أُرَى الْجَهْدَ بَلَغَ بِكَ مَا أَرَى تَجِدُ شَاةً فَقُلْتُ لَا فَقَالَ فَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ لِكُلِّ مِسْكِينٍ نِصْفَ صَاعٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1816

کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں باب : فدیہ میں ہر فقیر کو آدھا صاع غلہ دینا۔ ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن اصبہانی نے، ان سے عبداللہ بن معقل نے بیان کیا کہ میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، میں نے ان سے فدیہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ (قرآن شریف کی آیت ) اگرچہ خاص میرے بارے میں نازل ہوئی تھی لیکن اس کا حکم تم سب کے لیے ہے۔ ہوا یہ کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو جوئیں سر سے میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر فرمایا ) میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمہیں اتنی زیادہ تکلیف ہوگی یا (آپ نے یوں فرمایا کہ ) میں نہیں سمجھتا تھا کہ جہد (مشقت ) تمہیں اس حد تک ہوگی، کیا تجھ کو ایک بکری کا مقدور ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تین دن کے روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا، ہر مسکین کو آدھا صاع کھلائیو۔
تشریح : یہ بھی اسی صورت میں کہ میسر ہو ورنہ آیت کریمہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا ( البقرۃ : 286 ) کے تحت پھر تو توبہ استغفار بھی کفارہ ہو جائے گا، ہاں مقدور کی حالت میں ضرور ضرور حکم شرعی بجالانا ضروری ہوگا، ورنہ حج میں نقص رہنا یقینی ہے۔ حافظ فرماتے ہیں ای لکل مسکین من کل شیی یشیر بذلک الی الرد علی من فرق فی ذلک بین القمح و غیرہ قال ابن عبدالبر قال ابوحنیفۃ و الکوفیون نصف صاع من قمح و صاع من تمر و عن احمد روایۃ تضا ہی قولہم قال عیاض و ہذا الحدیث یرد علیہم ( فتح الباری ) و فی حدیث کعب بن عجرۃ من الفوائد ما تقدم ان السنۃ مبینۃ لمجل الکتاب لاطلاق الفدیۃ فی القرآن و تقییدہا فی السنۃ و تحریم حلق الراس علی المحرم و الرخصۃ فی حلقہا اذا اذاہ القمل او غیرہ من الاوجاع و فیہ تلطف الکبیر باصحابہ و عنایتہ باحوالہم و تفقدہ لہم و اذا رای ببعض اتباعہ ضررا سال عنہ و ارشدہ الی المخرج منہ یعنی ہر مسکین کے لیے ہر ایک چیز سے، اس میں اس شخص کے اوپر رد کرنا مقصو دہے جس نے اس بارے میں گندم وغیرہ کا فرق کیا ہے۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کہتے ہیں کہ گندم کا نصف صاع اور کھجور وں کا ایک صاع ہونا چاہئے۔ امام احمد کا قول بھی تقریباً اسی کے مشابہ ہے۔ قاضی عیاض نے فرمایا کہ حدیث کعب بن عجرہ ان کی تردید کر رہی ہے، اور اس حدیث کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن کے کسی اجمالی حکم کی تفصیل سنت رسول بیان کرتی ہے۔ قرآن مجید میں مطلق فدیہ کا ذکر تھا تو سنت نے اسے مقید کر دیا اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ محرم کے لیے سر منڈانا حرام ہے اور جب اسے جوؤں وغیرہ کی تکلیف ہو تو وہ منڈا سکتا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بڑے لوگوں کو ہمیشہ اپنے ساتھیوں پر نظر عنایت رکھتے ہوئے ان کے دکھ تکلیف کا خیال رکھنا چاہئے کسی کو کچھ بیماری وغیرہ ہو جائے تو اس کے علاج کے لیے ان کو نیک مشورہ دینا چاہئے۔ یہ بھی اسی صورت میں کہ میسر ہو ورنہ آیت کریمہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا ( البقرۃ : 286 ) کے تحت پھر تو توبہ استغفار بھی کفارہ ہو جائے گا، ہاں مقدور کی حالت میں ضرور ضرور حکم شرعی بجالانا ضروری ہوگا، ورنہ حج میں نقص رہنا یقینی ہے۔ حافظ فرماتے ہیں ای لکل مسکین من کل شیی یشیر بذلک الی الرد علی من فرق فی ذلک بین القمح و غیرہ قال ابن عبدالبر قال ابوحنیفۃ و الکوفیون نصف صاع من قمح و صاع من تمر و عن احمد روایۃ تضا ہی قولہم قال عیاض و ہذا الحدیث یرد علیہم ( فتح الباری ) و فی حدیث کعب بن عجرۃ من الفوائد ما تقدم ان السنۃ مبینۃ لمجل الکتاب لاطلاق الفدیۃ فی القرآن و تقییدہا فی السنۃ و تحریم حلق الراس علی المحرم و الرخصۃ فی حلقہا اذا اذاہ القمل او غیرہ من الاوجاع و فیہ تلطف الکبیر باصحابہ و عنایتہ باحوالہم و تفقدہ لہم و اذا رای ببعض اتباعہ ضررا سال عنہ و ارشدہ الی المخرج منہ یعنی ہر مسکین کے لیے ہر ایک چیز سے، اس میں اس شخص کے اوپر رد کرنا مقصو دہے جس نے اس بارے میں گندم وغیرہ کا فرق کیا ہے۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کہتے ہیں کہ گندم کا نصف صاع اور کھجور وں کا ایک صاع ہونا چاہئے۔ امام احمد کا قول بھی تقریباً اسی کے مشابہ ہے۔ قاضی عیاض نے فرمایا کہ حدیث کعب بن عجرہ ان کی تردید کر رہی ہے، اور اس حدیث کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن کے کسی اجمالی حکم کی تفصیل سنت رسول بیان کرتی ہے۔ قرآن مجید میں مطلق فدیہ کا ذکر تھا تو سنت نے اسے مقید کر دیا اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ محرم کے لیے سر منڈانا حرام ہے اور جب اسے جوؤں وغیرہ کی تکلیف ہو تو وہ منڈا سکتا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بڑے لوگوں کو ہمیشہ اپنے ساتھیوں پر نظر عنایت رکھتے ہوئے ان کے دکھ تکلیف کا خیال رکھنا چاہئے کسی کو کچھ بیماری وغیرہ ہو جائے تو اس کے علاج کے لیے ان کو نیک مشورہ دینا چاہئے۔