‌صحيح البخاري - حدیث 1803

کِتَابُ العُمْرَةِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأْتُوا البُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا} [البقرة: 189] صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا كَانَتْ الْأَنْصَارُ إِذَا حَجُّوا فَجَاءُوا لَمْ يَدْخُلُوا مِنْ قِبَلِ أَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ وَلَكِنْ مِنْ ظُهُورِهَا فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَدَخَلَ مِنْ قِبَلِ بَابِهِ فَكَأَنَّهُ عُيِّرَ بِذَلِكَ فَنَزَلَتْ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1803

کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان باب : اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ گھروں میں دروازوں سے داخل ہوا کرو ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ انصار جب حج کے لیے آتے تو (احرام کے بعد ) گھروں میں دروازوں سے نہیں جاتے بلکہ دیواروں سے کود کر (گھر کے اندر ) داخل ہوا کرتے تھے پھر (اسلام لانے کے بعد ) ایک انصاری شخص آیا اور دروازے سے گھر میں داخل ہو گیا اس پر لوگوں نے لعنت ملامت کی تو یہ وحی نازل ہوئی کہ ” یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ گھروں میں پیچھے سے (دیواروں پر چڑھ کر ) آؤ بلکہ نیک وہ شخص ہے جو تقویٰ اخیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو۔ “
تشریح : عہد جاہلیت میں قریش کے علاوہ عام غریب لوگ حج سے واپس ہوتے وقت گھروں کے دروازوں سے آنا معیوب سمجھتے اور دورازے کا سایہ سر پر پڑنا منحوس جانتے، اس لیے گھروں کی دیواروں سے پھاند کر آتے۔ قرآن مجید نے اس غلط خیال کی تردید۔ وہ آنے والا انصاری جس کا روایت میں ذکر ہے قطبہ بن عامر انصاری تھا۔ ابن خزیمہ اور حاکم کی روایت میں اس کی صراحت ہے اس کا نام رفاعہ بن تابوت بتایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت مذکورہ اسلامی اساسی امور کے بیان پر مشتمل ہے۔ آنے والے بزرگ کی تفصیلات کے سلسلے میں حافظ ابن حجر کا بیان یہ ہے : فی صحیحہما من طریق عمار بن زریق عن الاعمش عن ابی سفیان عن جابر قال کانت قریش تدعی الحمس و کانوا یدخلون من الابواب فی الاحرام و کانت الانصار و سائر العرب لا یدخلون من الابواب فبینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی بستان فخرج من بابہ فخرج معہ قطبۃ بن عامر الانصاری فقالوا یا رسول اللہ ان قطبۃ رجل فاجر فانہ خرج معک من الباب فقال ماحملک علی ذٰلک فقال رایتک فعلتہ ففعلت کما فعلت قال انی احمس قال فان دینی دینک فانزل اللہ الایۃ ( فتح الباری ) یعنی قریش کو حمس کے نام سے پکارا جاتا تھا اور صرف وہی حالت احرام میں اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہو سکتے تھے، ایسا عہد جاہلیت کا خیال تھا اور انصار بلکہ تمام اہل عرب اگر حالت احرام میں اپنے گھروں کو آتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ پیچھے کی دیوار پھاند کر گھر آیا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ کے دروازے سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ساتھ یہ قطبہ بن عامر انصاری بھی دروازے سے ہی آگئے۔ اس پر لوگوں نے ان کو لعن طعن شروع کی بلکہ فاجر تک کہہ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے بھی ایسا کیا کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے کیا تو آپ کی اتباع میں میں نے بھی ایسا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو حمسی ہوں انہوں نے کہا کہ حضور دین اسلام جو آپ کا ہے وہی میرا ہے۔ اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ عہد جاہلیت میں قریش کے علاوہ عام غریب لوگ حج سے واپس ہوتے وقت گھروں کے دروازوں سے آنا معیوب سمجھتے اور دورازے کا سایہ سر پر پڑنا منحوس جانتے، اس لیے گھروں کی دیواروں سے پھاند کر آتے۔ قرآن مجید نے اس غلط خیال کی تردید۔ وہ آنے والا انصاری جس کا روایت میں ذکر ہے قطبہ بن عامر انصاری تھا۔ ابن خزیمہ اور حاکم کی روایت میں اس کی صراحت ہے اس کا نام رفاعہ بن تابوت بتایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت مذکورہ اسلامی اساسی امور کے بیان پر مشتمل ہے۔ آنے والے بزرگ کی تفصیلات کے سلسلے میں حافظ ابن حجر کا بیان یہ ہے : فی صحیحہما من طریق عمار بن زریق عن الاعمش عن ابی سفیان عن جابر قال کانت قریش تدعی الحمس و کانوا یدخلون من الابواب فی الاحرام و کانت الانصار و سائر العرب لا یدخلون من الابواب فبینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی بستان فخرج من بابہ فخرج معہ قطبۃ بن عامر الانصاری فقالوا یا رسول اللہ ان قطبۃ رجل فاجر فانہ خرج معک من الباب فقال ماحملک علی ذٰلک فقال رایتک فعلتہ ففعلت کما فعلت قال انی احمس قال فان دینی دینک فانزل اللہ الایۃ ( فتح الباری ) یعنی قریش کو حمس کے نام سے پکارا جاتا تھا اور صرف وہی حالت احرام میں اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہو سکتے تھے، ایسا عہد جاہلیت کا خیال تھا اور انصار بلکہ تمام اہل عرب اگر حالت احرام میں اپنے گھروں کو آتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ پیچھے کی دیوار پھاند کر گھر آیا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ کے دروازے سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ساتھ یہ قطبہ بن عامر انصاری بھی دروازے سے ہی آگئے۔ اس پر لوگوں نے ان کو لعن طعن شروع کی بلکہ فاجر تک کہہ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے بھی ایسا کیا کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے کیا تو آپ کی اتباع میں میں نے بھی ایسا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو حمسی ہوں انہوں نے کہا کہ حضور دین اسلام جو آپ کا ہے وہی میرا ہے۔ اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔