‌صحيح البخاري - حدیث 1802

کِتَابُ العُمْرَةِ بَابُ مَنْ أَسْرَعَ نَاقَتَهُ إِذَا بَلَغَ المَدِينَةَ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَأَبْصَرَ دَرَجَاتِ الْمَدِينَةِ أَوْضَعَ نَاقَتَهُ وَإِنْ كَانَتْ دَابَّةً حَرَّكَهَا قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ زَادَ الْحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ حُمَيْدٍ حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ جُدُرَاتِ تَابَعَهُ الْحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1802

کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان باب : جس نے مدینہ طیبہ کے قریب پہنچ کر اپنی سواری تیز کردی (تاکہ جلد سے جلداس پاک شہر میں داخلہ نصیب ہو ) ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا کہ مجھے حمید طویل نے خبر دی انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے مدینہ واپس ہوتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے، کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔ ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ حارث بن عمیر نے حمید سے یہ لفظ زیادہ کئے ہیں کہ ” مدینہ سے محبت کی وجہ سے سواری تیز کردیتے تھے۔ “ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے، انھوں نے (درجات کے بجائے ) جدرات کہا، اس کی متابعت حارث بن عمیر نے کی۔
تشریح : حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے وطن کی محبت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، اس جگہ سے محبت ایک فطری جذبہ ہے، سفر میں بھی اپنے وطن کا اشتیاق باقی رہتا ہے۔ الغرض وطن سے محبت ایک قدرتی بات ہے اور اسلام میں یہ مذموم نہیں ہے مشہور مقولہ ہے ”حب الوطن من الایمان“ وطنی محبت بھی ایمان میں داخل ہے۔ ”جدرات“ یعنی مدینہ کے گھروں کی دیواروں پر نظر پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری تیز فرما دیتے تھے۔ بعض روایتوں میں ”دوحات“ کا لفظ آیا ہے یعنی مدینہ کے درخت نظر آنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن کی محبت میں سواری تیز کردیتے۔ آپ حج کے یا جہاد وغیرہ کے جس سفر سے بھی لوٹتے اسی طرح اظہار محبت فرمایا کرتے تھے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے وطن کی محبت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، اس جگہ سے محبت ایک فطری جذبہ ہے، سفر میں بھی اپنے وطن کا اشتیاق باقی رہتا ہے۔ الغرض وطن سے محبت ایک قدرتی بات ہے اور اسلام میں یہ مذموم نہیں ہے مشہور مقولہ ہے ”حب الوطن من الایمان“ وطنی محبت بھی ایمان میں داخل ہے۔ ”جدرات“ یعنی مدینہ کے گھروں کی دیواروں پر نظر پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری تیز فرما دیتے تھے۔ بعض روایتوں میں ”دوحات“ کا لفظ آیا ہے یعنی مدینہ کے درخت نظر آنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن کی محبت میں سواری تیز کردیتے۔ آپ حج کے یا جہاد وغیرہ کے جس سفر سے بھی لوٹتے اسی طرح اظہار محبت فرمایا کرتے تھے۔