‌صحيح البخاري - حدیث 18

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ لَيْلَةَ العَقَبَةِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: «بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لاَ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا أَوْلاَدَكُمْ [ص:13]، وَلاَ تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلاَ تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ» فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِكَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 18

کتاب: ایمان کے بیان میں باب: ہم سے اس حدیث کو ابوالیمان نے بیان کیا، ان کو شعیب نے خبر دی، وہ زہری سے نقل کرتے ہیں، انھیں ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃ العقبہ کے ( بارہ ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں ( خدا کی ) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں ( اس عہد کو ) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان ( بری باتوں ) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں ( اسلامی قانون کے تحت ) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے ( گناہوں کے ) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے ( گناہ ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا ( معاملہ ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دے دے۔ ( عبادہ کہتے ہیں کہ ) پھر ہم سب نے ان ( سب باتوں ) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔
تشریح : اس حدیث کے راوی عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت خزرجی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے مکہ آکر مقام عقبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور اہل مدینہ کی تعلیم وتربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بارہ آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیاتھا، یہ ان میں سے ایک ہیں جنگ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں۔34ہجری میں 72سال کی عمرپاکر انتقال کیا اور رملہ میں دفن ہوئے۔ صحیح بخاری میں ان سے نواحادیث مروی ہیں۔ انصار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے جب اسلام کی اعانت کے لیے مکہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تواسی بنا پر ان کا نام انصار ہوا۔ انصار ناصر کی جمع ہے اور ناصر مددگار کوکہتے ہیں۔ انصار عہدجاہلیت میں بنوقیلہ کے نام سے موسوم تھے۔ قیلہ اس ماں کو کہتے ہیں جو دوقبائل کی جامعہ ہو۔ جن سے اوس اور خزرج ہردوقبائل مراد ہیں۔ ان ہی کے مجموعہ کو انصار کہاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے تحت جب ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل جائے تو آخرت میں اس کے لیے یہ سزا کفارہ بن جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ ہرگناہ کی سزادے۔ اسی طرح اللہ پر کسی نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں۔ اگروہ گنہ گار کو سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف ہے اور گناہ معاف کردے تو یہ اس کی عین رحمت ہے۔ نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شان بے نیازی ہے اور ثواب عطا فرمادے تو یہ اس کا عین کرم ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ گناہ کبیرہ کامرتکب بغیرتوبہ کئے مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تواس کے ایمان کی برکت سے بغیر سزادئیے جنت میں داخل کرے اور چاہے سزا دے کر پھر جنت میں داخل کرے۔ مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے بارے میں قانون الٰہی یہ ہے ان اللہ لایغفران یشرک بہ الایۃ جو شخص شرک پر انتقال کرجائے تو اللہ پاک اسے ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ کسی مومن کا خون ناحق بھی نص قرآن سے یہی حکم رکھتا ہے۔ اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ جب تک وہ بندے ہی نہ معاف کردیں، معافی نہیں ملے گی۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یاقطعی دوزخی کہنا جائز نہیں۔ پانچویں بات معلوم ہوئی کہ اگرایمان دل میں ہے تومحض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ مگرایمان قلبی کے لیے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوت ایمان دینا بھی ضروری ہے۔ اس حدیث میں ایمان، اخلاق، حقوق العباد کے وہ بیشتر مسائل آگئے ہیں۔ جن کو دین وایمان کی بنیاد کہاجا سکتا ہے۔ اس سے صاف واضح ہوگیا کہ نیکی وبدی یقینا ایمان کی کمی وبیشی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور جملہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان احادیث کی روایت سے حضرت امیرالمحدثین کا یہی مقصد ہے۔ پس جو لوگ ایمان میں کمی وبیشی کے قائل نہیں وہ یقینا خطا پر ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یاہمیشہ کے لیے دوزخی بتلاتے ہیں۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہماری روایت کے مطابق یہاں لفظ باب بغیرترجمہ کے ہے اور یہ ترجمہ سابق ہی سے متعلق ہے۔ ووجہ التعلق انہ لما ذکرالانصار فی الحدیث الاول اشارفی ہذا الی ابتداءالسبب فی تلقیہم بالانصار لان اول ذلک کان لیلۃ العقبۃ لما توافقوا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم عندعقبۃ منی فی الموسم کماسیاتی شرح ذلک ان شاءاللہ تعالیٰ فی السیرۃ النبویۃ من ہذا الکتاب یعنی اس تعلق کی وجہ یہ ہے کہ حدیث اول میں انصار کا ذکر کیاگیا تھا یہاں یہ بتلایاگیا کہ یہ لقب ان کو کیونکر ملا۔ اس کی ابتداءاس وقت سے ہوئی جب کہ ان لوگوں نے عقبہ میں منیٰ کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت وامداد کے لیے پورے طور پر وعدہ کیا۔ لفظ “ عصابہ ” کا اطلاق زیادہ سے زیادہ چالیس پر ہو سکتا ہے۔ یہ بیعت اسلام تھی جس میں آپ نے شرک باللہ سے توبہ کرنے کا عہدلیا۔ پھر دیگر اخلاقی برائیوں سے بچنے کا اور اولاد کوقتل نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ جب کہ عرب میں یہ برائیاں عام تھیں۔ بہتان سے بچنے کا بھی وعدہ لیا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کی کوئی اصلیت نہ ہو۔ الفاظ بین ایدیکم وارجلکم میں دل سے کنایہ ہے۔ یعنی دل نے ایک بے حقیقت بات گھڑلی۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی بات پر عہد لیاکہ ہرنیک کام میں ہمیشہ اطاعت کرنی ہوگی۔ معروف ہروہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں جانی ہوئی ہو۔ اس کی ضد منکرہے۔ جوشریعت میں نگاہ نفرت سے دیکھی جائے۔ اس حدیث کے راوی عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت خزرجی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے مکہ آکر مقام عقبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور اہل مدینہ کی تعلیم وتربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بارہ آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیاتھا، یہ ان میں سے ایک ہیں جنگ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں۔34ہجری میں 72سال کی عمرپاکر انتقال کیا اور رملہ میں دفن ہوئے۔ صحیح بخاری میں ان سے نواحادیث مروی ہیں۔ انصار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے جب اسلام کی اعانت کے لیے مکہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تواسی بنا پر ان کا نام انصار ہوا۔ انصار ناصر کی جمع ہے اور ناصر مددگار کوکہتے ہیں۔ انصار عہدجاہلیت میں بنوقیلہ کے نام سے موسوم تھے۔ قیلہ اس ماں کو کہتے ہیں جو دوقبائل کی جامعہ ہو۔ جن سے اوس اور خزرج ہردوقبائل مراد ہیں۔ ان ہی کے مجموعہ کو انصار کہاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے تحت جب ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل جائے تو آخرت میں اس کے لیے یہ سزا کفارہ بن جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ ہرگناہ کی سزادے۔ اسی طرح اللہ پر کسی نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں۔ اگروہ گنہ گار کو سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف ہے اور گناہ معاف کردے تو یہ اس کی عین رحمت ہے۔ نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شان بے نیازی ہے اور ثواب عطا فرمادے تو یہ اس کا عین کرم ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ گناہ کبیرہ کامرتکب بغیرتوبہ کئے مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تواس کے ایمان کی برکت سے بغیر سزادئیے جنت میں داخل کرے اور چاہے سزا دے کر پھر جنت میں داخل کرے۔ مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے بارے میں قانون الٰہی یہ ہے ان اللہ لایغفران یشرک بہ الایۃ جو شخص شرک پر انتقال کرجائے تو اللہ پاک اسے ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ کسی مومن کا خون ناحق بھی نص قرآن سے یہی حکم رکھتا ہے۔ اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ جب تک وہ بندے ہی نہ معاف کردیں، معافی نہیں ملے گی۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یاقطعی دوزخی کہنا جائز نہیں۔ پانچویں بات معلوم ہوئی کہ اگرایمان دل میں ہے تومحض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ مگرایمان قلبی کے لیے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوت ایمان دینا بھی ضروری ہے۔ اس حدیث میں ایمان، اخلاق، حقوق العباد کے وہ بیشتر مسائل آگئے ہیں۔ جن کو دین وایمان کی بنیاد کہاجا سکتا ہے۔ اس سے صاف واضح ہوگیا کہ نیکی وبدی یقینا ایمان کی کمی وبیشی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور جملہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان احادیث کی روایت سے حضرت امیرالمحدثین کا یہی مقصد ہے۔ پس جو لوگ ایمان میں کمی وبیشی کے قائل نہیں وہ یقینا خطا پر ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یاہمیشہ کے لیے دوزخی بتلاتے ہیں۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہماری روایت کے مطابق یہاں لفظ باب بغیرترجمہ کے ہے اور یہ ترجمہ سابق ہی سے متعلق ہے۔ ووجہ التعلق انہ لما ذکرالانصار فی الحدیث الاول اشارفی ہذا الی ابتداءالسبب فی تلقیہم بالانصار لان اول ذلک کان لیلۃ العقبۃ لما توافقوا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم عندعقبۃ منی فی الموسم کماسیاتی شرح ذلک ان شاءاللہ تعالیٰ فی السیرۃ النبویۃ من ہذا الکتاب یعنی اس تعلق کی وجہ یہ ہے کہ حدیث اول میں انصار کا ذکر کیاگیا تھا یہاں یہ بتلایاگیا کہ یہ لقب ان کو کیونکر ملا۔ اس کی ابتداءاس وقت سے ہوئی جب کہ ان لوگوں نے عقبہ میں منیٰ کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت وامداد کے لیے پورے طور پر وعدہ کیا۔ لفظ “ عصابہ ” کا اطلاق زیادہ سے زیادہ چالیس پر ہو سکتا ہے۔ یہ بیعت اسلام تھی جس میں آپ نے شرک باللہ سے توبہ کرنے کا عہدلیا۔ پھر دیگر اخلاقی برائیوں سے بچنے کا اور اولاد کوقتل نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ جب کہ عرب میں یہ برائیاں عام تھیں۔ بہتان سے بچنے کا بھی وعدہ لیا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کی کوئی اصلیت نہ ہو۔ الفاظ بین ایدیکم وارجلکم میں دل سے کنایہ ہے۔ یعنی دل نے ایک بے حقیقت بات گھڑلی۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی بات پر عہد لیاکہ ہرنیک کام میں ہمیشہ اطاعت کرنی ہوگی۔ معروف ہروہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں جانی ہوئی ہو۔ اس کی ضد منکرہے۔ جوشریعت میں نگاہ نفرت سے دیکھی جائے۔