کِتَابُ العُمْرَةِ بَابُ عُمْرَةِ التَّنْعِيمِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ عَنْ حَبِيبٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَطَاءٍ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ وَأَصْحَابُهُ بِالْحَجِّ وَلَيْسَ مَعَ أَحَدٍ مِنْهُمْ هَدْيٌ غَيْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَلْحَةَ وَكَانَ عَلِيٌّ قَدِمَ مِنْ الْيَمَنِ وَمَعَهُ الْهَدْيُ فَقَالَ أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِأَصْحَابِهِ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً يَطُوفُوا بِالْبَيْتِ ثُمَّ يُقَصِّرُوا وَيَحِلُّوا إِلَّا مَنْ مَعَهُ الْهَدْيُ فَقَالُوا نَنْطَلِقُ إِلَى مِنًى وَذَكَرُ أَحَدِنَا يَقْطُرُ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ وَلَوْلَا أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لَأَحْلَلْتُ وَأَنَّ عَائِشَةَ حَاضَتْ فَنَسَكَتْ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا غَيْرَ أَنَّهَا لَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ قَالَ فَلَمَّا طَهُرَتْ وَطَافَتْ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنْطَلِقُونَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ وَأَنْطَلِقُ بِالْحَجِّ فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَنْ يَخْرُجَ مَعَهَا إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرَتْ بَعْدَ الْحَجِّ فِي ذِي الْحَجَّةِ وَأَنَّ سُرَاقَةَ بْنَ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ لَقِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْعَقَبَةِ وَهُوَ يَرْمِيهَا فَقَالَ أَلَكُمْ هَذِهِ خَاصَّةً يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا بَلْ لِلْأَبَدِ
کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان
باب : تنعیم سے عمرہ کرنا
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، ان سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے، ان سے حبیب معلم نے، ان سے عطاءبن ابی رباح نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے سوا قربانی کسی کے پاس نہیں تھی۔ ان ہی دنوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تو ان کے ساتھ بھی قربانی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جس چیز کا احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے میرا بھی احرام وہی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو (مکہ میں پہنچ کر ) اس کی اجازت دے دی تھی کہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کردیں اور بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرکے بال ترشوا لیں اور احرام کھول دیں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں جن کے ساتھ قربانی ہو۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم منیٰ سے حج کے لیے اس طرح سے جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منیٰ ٹپک رہی ہو۔ یہ با ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بات اب ہوئی اگر پہلے سے معلوم ہوتی تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو (افعال عمرہ ادا کرنے کے بعد ) میں بھی احرام کھول دیتا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا (اس حج میں ) حائضہ ہو گئی تھیں اس لیے انہوں نے اگرچہ تمام مناسک ادا کئے لیکن بیت اللہ کا طو اف نہیں کیا۔ پھر جب وہ پاک ہو گئیں اور طواف کر لیا تو عرض کی یا رسول اللہ ! سب لوگ حج اور عمرہ دونوں کرکے واپس ہو رہے ہیں لیکن میں صرف حج کرسکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ انہیں ہمراہ لے کر تنعیم جائیں اور عمرہ کرالائیں، یہ عمرہ حج کے بعد ذی الحجہ کے ہی مہینہ میں ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ عقبہ کی رمی کر رہے تھے تو سراقہ بن مالک بن جعشم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا یہ (عمرہ اورحج کے درمیان احرام کھول دینا ) صرف آپ ہی کے لیے ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔
تشریح :
یزید کی روایت میں یوں ہے کہ کیا یہ حکم خاص ہمارے لیے ہے، امام مسلم کی روایت میں یوں ہے سراقہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ کیا یہ حکم خاص اسی سال کے لیے ہے۔ آپ نے انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا اور دوبارہ فرمایا عمرہ حج میں ہمیشہ کے لیے شریک ہو گیا۔ نووی نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا درسست ہوا۔ اور جاہلیت کا قاعدہ ٹوٹ گیا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا مکروہ ہے۔ بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ قران یعنی حج اور عمرے کو جمع کرنا درست ہوا اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ تمتع، جس میں قربانی ہے وہ یہ ہے کہ حج سے پہلے عمرہ کرے اور جو لوگ حج کے مہینوں میں سارے ذی الحجہ کو شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذی الحجہ میں حج کے بعد بھی عمرہ کرے تو وہ بھی تمتع ہے اور اس میں قربانی یا روزے واجب نہیں، وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی تھی۔ جیسے ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے قربان کی اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے قربانی دی اور شاید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کی خبر نہ ہو۔
یزید کی روایت میں یوں ہے کہ کیا یہ حکم خاص ہمارے لیے ہے، امام مسلم کی روایت میں یوں ہے سراقہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ کیا یہ حکم خاص اسی سال کے لیے ہے۔ آپ نے انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا اور دوبارہ فرمایا عمرہ حج میں ہمیشہ کے لیے شریک ہو گیا۔ نووی نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا درسست ہوا۔ اور جاہلیت کا قاعدہ ٹوٹ گیا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا مکروہ ہے۔ بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ قران یعنی حج اور عمرے کو جمع کرنا درست ہوا اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ تمتع، جس میں قربانی ہے وہ یہ ہے کہ حج سے پہلے عمرہ کرے اور جو لوگ حج کے مہینوں میں سارے ذی الحجہ کو شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذی الحجہ میں حج کے بعد بھی عمرہ کرے تو وہ بھی تمتع ہے اور اس میں قربانی یا روزے واجب نہیں، وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی تھی۔ جیسے ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے قربان کی اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے قربانی دی اور شاید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کی خبر نہ ہو۔