‌صحيح البخاري - حدیث 1757

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ إِذَا حَاضَتِ المَرْأَةُ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاضَتْ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحَابِسَتُنَا هِيَ قَالُوا إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ قَالَ فَلَا إِذًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1757

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب : اگر طواف افاضہ کے بعد عورت حائضہ ہو جائے؟ ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالرحمن بن قاسم نے، انہیں ان کے والد نے او رانہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا (حجۃ الوداع کے موقع پر ) حائضہ ہو گئیں تو میں نے اس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو یہ ہمیں روکیں گیں، لوگوں نے کہا کہ انہوں نے طواف افاضہ کر لیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کوئی فکر نہیں۔
تشریح : یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایک روایت میں پہلے گزر چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے صحبت کرنی چاہی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ وہ حائضہ ہیں پس اگر آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ طواف الزیارۃ کرچکی ہیں، جیسے اس روایت سے نکلتا ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صحبت کرنے کا ارادہ کیوں کر کیا اور اس کا جواب یہ ہے کہ صحبت کا قصد کرتے وقت یہ سمجھے ہوں گے کہ اور بیویوں کے ساتھ وہ بھی طواف الزیارۃ کرچکی ہیں کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں کو طواف کا اذن دیا تھا اور چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا خیال نہ رہا یا آپ کو یہ خیال آیا کہ شاید طواف الزیارۃ سے پہلے ان کو حیض آیا تھا تو انہوں نے طواف الزیارہ بھی نہیں کیا۔ ( وحیدی ) بہرحال اس صورت میں ہر دو احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے، احادیث صحیحہ مختلفہ میں بایں صورت تطبیق دنیا ہی مناسب ہے نہ کہ ان کو رد کرنے کی کوشش کرنا جیسا کہ آج کل منکرین احادیث دستو رسے اپنی ناقص عقل کے تحت احادیث کو پرکھنا چاہتے ہیں، ان کی عقلوں پر خدا کی مار ہو کہ یہ کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گہرائیوںکوسمجھنے سے اپنے کوقاصر پاکر ضلالت و غوایت کا یہ خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس شک و شبہ کے لیے ایک ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے کہ احادیث صحیحہ کا انکار کرنا، قرآن مجید کا انکار کرنا ہے، بلکہ اسلام اور اس جامع شریعت کا انکار کرنا ہے، اس حقیقت کے بعد منکرین حدیث کو اگر دائرہ اسلام اور ز مرہ اہل ایمان سے قطعاً خارج قرار دیا جائے تو یہ فیصلہ عین حق بجانب ہے۔ واللہ علی مانقول وکیل۔ یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایک روایت میں پہلے گزر چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے صحبت کرنی چاہی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ وہ حائضہ ہیں پس اگر آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ طواف الزیارۃ کرچکی ہیں، جیسے اس روایت سے نکلتا ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صحبت کرنے کا ارادہ کیوں کر کیا اور اس کا جواب یہ ہے کہ صحبت کا قصد کرتے وقت یہ سمجھے ہوں گے کہ اور بیویوں کے ساتھ وہ بھی طواف الزیارۃ کرچکی ہیں کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں کو طواف کا اذن دیا تھا اور چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا خیال نہ رہا یا آپ کو یہ خیال آیا کہ شاید طواف الزیارۃ سے پہلے ان کو حیض آیا تھا تو انہوں نے طواف الزیارہ بھی نہیں کیا۔ ( وحیدی ) بہرحال اس صورت میں ہر دو احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے، احادیث صحیحہ مختلفہ میں بایں صورت تطبیق دنیا ہی مناسب ہے نہ کہ ان کو رد کرنے کی کوشش کرنا جیسا کہ آج کل منکرین احادیث دستو رسے اپنی ناقص عقل کے تحت احادیث کو پرکھنا چاہتے ہیں، ان کی عقلوں پر خدا کی مار ہو کہ یہ کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گہرائیوںکوسمجھنے سے اپنے کوقاصر پاکر ضلالت و غوایت کا یہ خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس شک و شبہ کے لیے ایک ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے کہ احادیث صحیحہ کا انکار کرنا، قرآن مجید کا انکار کرنا ہے، بلکہ اسلام اور اس جامع شریعت کا انکار کرنا ہے، اس حقیقت کے بعد منکرین حدیث کو اگر دائرہ اسلام اور ز مرہ اہل ایمان سے قطعاً خارج قرار دیا جائے تو یہ فیصلہ عین حق بجانب ہے۔ واللہ علی مانقول وکیل۔