‌صحيح البخاري - حدیث 1750

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ السُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا الْبَقَرَةُ وَالسُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا آلُ عِمْرَانَ وَالسُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا النِّسَاءُ قَالَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ أَنَّهُ كَانَ مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَاسْتَبْطَنَ الْوَادِيَ حَتَّى إِذَا حَاذَى بِالشَّجَرَةِ اعْتَرَضَهَا فَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ ثُمَّ قَالَ مِنْ هَا هُنَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ قَامَ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1750

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب : اس بیان میں کہ (حاجی کو ) کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہئے ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد مصری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے حجاج سے سنا، وہ منبر پر سورتوں کا یوں نام لے رہا تھا وہ سورہ جس میں بقرہ (گائے ) کا ذکر آیا ہے، وہ سورہ جس میں آل عمران کا ذکر آیا ہے، وہ سورہ جس میں نساء(عورتوں ) کا ذکر آیا ہے، اعمش نے کہا میں نے اس کا ذکر حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن یزید نے بیان کیا کہ جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو وہ ان کے ساتھ تھے، اس وقت وہ وادی کے نشیب میں اتر گئے اور جب درخت کے (جو اس وقت وہاں پر تھا ) برابر نیچے اس کے سامنے ہو کر سات کنکریوں سے رمی کی ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے جاتے تھے۔ پھر فرمایا قسم ہے اس کی کہ جس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں یہیں وہ ذات بھی کھڑی ہوئی تھی جس پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی صلی اللہ علیہ وسلم۔
تشریح : معلوم ہواکہ کنکری جداجدا مارنی چاہئے اور ہر ایک کے مارتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہئے۔ روایت میں حجاج بن یوسف کا ذکر ہے کہ وہ سورتوں کے مجوزہ ناموں کا استعمال چھوڑ کر اضافی ناموں سے ان کا ذکر کرتا تھا جیسا کہ روایت مذکور ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم نخعی نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت کا ذکر کیا کہ وہ سورتوں کے مجوزہ نام ہی لیتے تھے اور یہی ہونا چاہئے اس بارے میں حجاج کا خیال درست نہ تھا، امت اسلامیہ میں یہ شخص سفاک بے رحم ظالم کے نام سے مشہور ہے کہ اس نے زندگی میں خدا جانے کتنے بے گناہوں کا خون ناحق زمین کے گردن پر بہایا ہے، باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے قال ابن المنیر خص عبداللہ سورۃ البقرۃ بالذکر لانہا التی ذکراللہ فیہا الرمی فاشار الی ان فعلہ صلی اللہ علی وسلم مبین لمراد کتاب اللہ تعالیٰ الخ ( فتح الباری ) یعنی ابن منیر نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خصوصیت کے ساتھ سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں اللہ نے رمی کا ذکر فرمایا ہے پس آپ نے اشارہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کتاب اللہ کی مراد کی تفسیر پیش کردی گویا یہ بتلایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر احکام مناسک کا نزول ہوا۔ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں جس طرح شارع علیہ السلام نے ان کو بتلایا، اسی طرح ان کی ادائیگی لازم ہے کمی بیشی کی کسی کو مجال نہیں ہے۔ واللہ اعلم معلوم ہواکہ کنکری جداجدا مارنی چاہئے اور ہر ایک کے مارتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہئے۔ روایت میں حجاج بن یوسف کا ذکر ہے کہ وہ سورتوں کے مجوزہ ناموں کا استعمال چھوڑ کر اضافی ناموں سے ان کا ذکر کرتا تھا جیسا کہ روایت مذکور ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم نخعی نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت کا ذکر کیا کہ وہ سورتوں کے مجوزہ نام ہی لیتے تھے اور یہی ہونا چاہئے اس بارے میں حجاج کا خیال درست نہ تھا، امت اسلامیہ میں یہ شخص سفاک بے رحم ظالم کے نام سے مشہور ہے کہ اس نے زندگی میں خدا جانے کتنے بے گناہوں کا خون ناحق زمین کے گردن پر بہایا ہے، باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے قال ابن المنیر خص عبداللہ سورۃ البقرۃ بالذکر لانہا التی ذکراللہ فیہا الرمی فاشار الی ان فعلہ صلی اللہ علی وسلم مبین لمراد کتاب اللہ تعالیٰ الخ ( فتح الباری ) یعنی ابن منیر نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خصوصیت کے ساتھ سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں اللہ نے رمی کا ذکر فرمایا ہے پس آپ نے اشارہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کتاب اللہ کی مراد کی تفسیر پیش کردی گویا یہ بتلایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر احکام مناسک کا نزول ہوا۔ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں جس طرح شارع علیہ السلام نے ان کو بتلایا، اسی طرح ان کی ادائیگی لازم ہے کمی بیشی کی کسی کو مجال نہیں ہے۔ واللہ اعلم