‌صحيح البخاري - حدیث 1749

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَنْ رَمَى جَمْرَةَ العَقَبَةِ فَجَعَلَ البَيْتَ عَنْ يَسَارِهِ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ حَجَّ مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَآهُ يَرْمِي الْجَمْرَةَ الْكُبْرَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ فَجَعَلَ الْبَيْتَ عَنْ يَسَارِهِ وَمِنًى عَنْ يَمِينِهِ ثُمَّ قَالَ هَذَا مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1749

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب : اس شخص کے متعلق جس نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو بیت اللہ کو اپنی بائیں طرف کیا ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمن بن یزید نے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا انہوں نے دیکھا جمرہ عقبہ کی سات کنکریوں کے ساتھ رمی کے وقت آپ نے بیت اللہ کو تو اپنی بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف کر لیا پھر فرمایا کہ یہی ان کا بھی مقام تھا جن پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی تھی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
تشریح : قسطلانی نے کہا کہ یہ دسویں تاریخ کی رمی ہے گیارہویں بارہویں تاریخ کو اوپر سے مارنا چاہئے اور جمرہ عقبہ جس کو آج کل عوام بڑا شیطان کہتے ہیں چار باتوں میں اور جمرات سے بہتر ہے، ایک تو یہ کہ یوم النحر کو فقط اسی کی رمی ہے دوسرے یہ کہ اس کی رمی چاشت کے وقت ہے، تیسرے یہ کہ نشیب میں اس کو مارنا ہے، چوتھے یہ کہ دعا وغیرہ کے لیے اس کے پاس نہیں ٹھہرنا چاہئے اور دوسرے جمروں کے پاس رمی کے بعد ٹھہر کر دعا کرنا مستحب ہے۔ جمرات کی رمی کرنا یہ اس وقت کی یادگار ہے جب کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بہکانے کے لیے ان مقامات پر شیطان ظاہر ہوا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ارشاد الٰہی کی تعمیل سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ان تینوں مقامات پر بطور نشان پتھروں کے مینارے سے بنا دئے گئے ہیں اور ان ہی پرمقررہ شرائط کے ساتھ کنکریاں مار کر گویا شیطان مردود کو رجم کیا جاتا ہے اور حاجی گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ شیطان مردود کی مخالفت اور ارشاد الٰہی کی اطاعت میں پیش پیش رہے گا اور تاعمر اس یادگار کو فراموش نہ کرکے اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا سچا پیرو کار ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ جمرہ عقبہ کو جمرہ کبریٰ بھی کہتے ہیں اور یہ جہت مکہ میں منی کی آخری حد پر واقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے لیے انصار سے اسی جگہ بیعت لی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللہم اجعلہ حجا مبروراً و ذنبا مغفوراً۔ قسطلانی نے کہا کہ یہ دسویں تاریخ کی رمی ہے گیارہویں بارہویں تاریخ کو اوپر سے مارنا چاہئے اور جمرہ عقبہ جس کو آج کل عوام بڑا شیطان کہتے ہیں چار باتوں میں اور جمرات سے بہتر ہے، ایک تو یہ کہ یوم النحر کو فقط اسی کی رمی ہے دوسرے یہ کہ اس کی رمی چاشت کے وقت ہے، تیسرے یہ کہ نشیب میں اس کو مارنا ہے، چوتھے یہ کہ دعا وغیرہ کے لیے اس کے پاس نہیں ٹھہرنا چاہئے اور دوسرے جمروں کے پاس رمی کے بعد ٹھہر کر دعا کرنا مستحب ہے۔ جمرات کی رمی کرنا یہ اس وقت کی یادگار ہے جب کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بہکانے کے لیے ان مقامات پر شیطان ظاہر ہوا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ارشاد الٰہی کی تعمیل سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ان تینوں مقامات پر بطور نشان پتھروں کے مینارے سے بنا دئے گئے ہیں اور ان ہی پرمقررہ شرائط کے ساتھ کنکریاں مار کر گویا شیطان مردود کو رجم کیا جاتا ہے اور حاجی گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ شیطان مردود کی مخالفت اور ارشاد الٰہی کی اطاعت میں پیش پیش رہے گا اور تاعمر اس یادگار کو فراموش نہ کرکے اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا سچا پیرو کار ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ جمرہ عقبہ کو جمرہ کبریٰ بھی کہتے ہیں اور یہ جہت مکہ میں منی کی آخری حد پر واقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے لیے انصار سے اسی جگہ بیعت لی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللہم اجعلہ حجا مبروراً و ذنبا مغفوراً۔