‌صحيح البخاري - حدیث 1746

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ رَمْيِ الجِمَارِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ وَبَرَةَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَتَى أَرْمِي الْجِمَارَ قَالَ إِذَا رَمَى إِمَامُكَ فَارْمِهْ فَأَعَدْتُ عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ قَالَ كُنَّا نَتَحَيَّنُ فَإِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ رَمَيْنَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1746

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب : کنکریاں مارنے کا بیان ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے وبرہ نے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ میں کنکریاں کس وقت ماروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارا امام مارے تو تم بھی مارو، لیکن دوبارہ میں نے ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور جب سورج ڈھل جاتا تو کنکریاں مارتے۔
تشریح : افضل وقت کنکریاں مارنے کا یہی ہے کہ یوم النحر کو چاشت کے وقت مارے، اور جائز ہے دسویں شب کی آدھی رات کے بعد سے، اور غروب آفتاب تک دسویں تاریخ کو اس کا آخری وقت ہے اور گیارہویں یا بارہویں کو زوال کے بعدظہر کی نماز سے پہلے مارنا افضل ہے، کنکریاں سات سے کم نہ ہوں، جمہور علماءکا یہی قول ہے و فیہ دلیل علی ان السنۃ ان یرمی الجمار فی غیر یوم الاضحیٰ بعد الزوال و بہ قال الجمہور ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ دسویں تاریخ کے بعد سنت یہ ہے کہ رمی جمار زوال کے بعد ہو اور جمہور کا یہی فتویٰ ہے۔ جب امام مارے تم بھی مارو، یہ ہدایت اس لیے فرمائی تاکہ امرائے وقت کی مخالفت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ پہنچ سکے، اگر امرائے جور ہوں تو ایسے احکام میں مجبوراً ان کی اطاعت کرنی ہے جیسا کہ نماز کے لیے فرمایا کہ ظالم امیر اگر دیر سے پڑھیں تو ان کے ساتھ بھی ادا کرلو اور ان کو نفل قرار دے لو، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس دور میں حجاج بن یوسف جیسے سفاک ظالم کا زمانہ تھا اس بنا پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایسا فرمایا، نیک عادل امراءکی اطاعت نیک کاموں میں بہرحال فرض ہے اور موجب ثواب ہے اور یہ چیز امراءہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ نیک امر میں ادنی سے ادنی آدمی کی بھی اطاعت لازم ہے۔ و ان کان عبداً حبشیا کا یہی مطلب ہے۔ افضل وقت کنکریاں مارنے کا یہی ہے کہ یوم النحر کو چاشت کے وقت مارے، اور جائز ہے دسویں شب کی آدھی رات کے بعد سے، اور غروب آفتاب تک دسویں تاریخ کو اس کا آخری وقت ہے اور گیارہویں یا بارہویں کو زوال کے بعدظہر کی نماز سے پہلے مارنا افضل ہے، کنکریاں سات سے کم نہ ہوں، جمہور علماءکا یہی قول ہے و فیہ دلیل علی ان السنۃ ان یرمی الجمار فی غیر یوم الاضحیٰ بعد الزوال و بہ قال الجمہور ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ دسویں تاریخ کے بعد سنت یہ ہے کہ رمی جمار زوال کے بعد ہو اور جمہور کا یہی فتویٰ ہے۔ جب امام مارے تم بھی مارو، یہ ہدایت اس لیے فرمائی تاکہ امرائے وقت کی مخالفت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ پہنچ سکے، اگر امرائے جور ہوں تو ایسے احکام میں مجبوراً ان کی اطاعت کرنی ہے جیسا کہ نماز کے لیے فرمایا کہ ظالم امیر اگر دیر سے پڑھیں تو ان کے ساتھ بھی ادا کرلو اور ان کو نفل قرار دے لو، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس دور میں حجاج بن یوسف جیسے سفاک ظالم کا زمانہ تھا اس بنا پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایسا فرمایا، نیک عادل امراءکی اطاعت نیک کاموں میں بہرحال فرض ہے اور موجب ثواب ہے اور یہ چیز امراءہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ نیک امر میں ادنی سے ادنی آدمی کی بھی اطاعت لازم ہے۔ و ان کان عبداً حبشیا کا یہی مطلب ہے۔