كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الخُطْبَةِ أَيَّامَ مِنًى صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ غَزْوَانَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا قَالُوا يَوْمٌ حَرَامٌ قَالَ فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا قَالُوا بَلَدٌ حَرَامٌ قَالَ فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا قَالُوا شَهْرٌ حَرَامٌ قَالَ فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فَأَعَادَهَا مِرَارًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهَا لَوَصِيَّتُهُ إِلَى أُمَّتِهِ فَلْيُبْلِغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب : منیٰ کے دنوں میں خطبہ سنانا
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے فضل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ دسویں تاریخ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں خطبہ دیا، خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لوگو ! آج کونسا دن ہے؟ لوگ بولے یہ حرمت کا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا اور یہ شہر کونسا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا شہر ہے، آپ صلی اللہ عیہ وسلم نے پوچھا یہ مہینہ کونسا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا مہینہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس تمہارا خون تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام لیے جیسے اس دن کی حرمت، اس شہر اور اس مہینہ کی حرمت ہے، اس کلمہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار دہرایا اور پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا اے اللہ ! کیا میں نے (تیرا پیغام ) پہنچا دیا اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ اس ذا ت کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت اپنی تمام امت کے لیے ہے، لہٰذا حاضر (اور جاننے والے ) غائب (اور ناواقف لوگوں کو اللہ کا پیغام ) پہنچا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا دیکھو میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا۔
تشریح :
یہ خطبہ یوم النحر کو سنانا سنت ہے اس میں رمی وغیرہ کے احکام بیان کرنا چاہئے اور یہ حج کے چار خطبوں میں سے تیسرا خطبہ ہے اور سب نماز عید کے بعد ہیں مگر عرفہ کا خطبہ نماز سے پہلے ہے اس دن دو خطبے پڑھنے چاہئیں۔ قسطلانی ( وحیدی )
حج کا مقصد عظیم دنیائے اسلام کو خدا ترسی اور اتفاق باہمی کی دعوت دینا ہے اور اس کا بہترین موقع یہی خطبات ہیں، لہٰذا خطیب کا فرض ہے کہ مسائل حج کے ساتھ ساتھ وہ دنیائے اسلام کے مسائل پر بھی روشنی ڈالے اور مسلمانوں کو خدا ترسی، کتاب و سنت کی پابندی اور باہمی اتفاق کی دعوت دے کہ حج کا یہی مقصود اعظم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں اللہ کو پکارنے کے لیے آسمان کی طرف سر اٹھایا، اس سے اللہ پاک کے لیے جہت فوق اور استوی علی العرش ثابت ہوا۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو یوم النحر/ آٹھویں کو یوم الترویہ، نویں کو یوم عرفہ اور گیارہویں کو یوم القرا اور بارہویں کو یوم النفر اول اور تیرہویں کو یوم النفر الثانی کہتے ہیں۔ اور دسویں گیارہویں بارہویں تیرہویں کو ایام تشریق کہتے ہیں۔
یہ خطبہ یوم النحر کو سنانا سنت ہے اس میں رمی وغیرہ کے احکام بیان کرنا چاہئے اور یہ حج کے چار خطبوں میں سے تیسرا خطبہ ہے اور سب نماز عید کے بعد ہیں مگر عرفہ کا خطبہ نماز سے پہلے ہے اس دن دو خطبے پڑھنے چاہئیں۔ قسطلانی ( وحیدی )
حج کا مقصد عظیم دنیائے اسلام کو خدا ترسی اور اتفاق باہمی کی دعوت دینا ہے اور اس کا بہترین موقع یہی خطبات ہیں، لہٰذا خطیب کا فرض ہے کہ مسائل حج کے ساتھ ساتھ وہ دنیائے اسلام کے مسائل پر بھی روشنی ڈالے اور مسلمانوں کو خدا ترسی، کتاب و سنت کی پابندی اور باہمی اتفاق کی دعوت دے کہ حج کا یہی مقصود اعظم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں اللہ کو پکارنے کے لیے آسمان کی طرف سر اٹھایا، اس سے اللہ پاک کے لیے جہت فوق اور استوی علی العرش ثابت ہوا۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو یوم النحر/ آٹھویں کو یوم الترویہ، نویں کو یوم عرفہ اور گیارہویں کو یوم القرا اور بارہویں کو یوم النفر اول اور تیرہویں کو یوم النفر الثانی کہتے ہیں۔ اور دسویں گیارہویں بارہویں تیرہویں کو ایام تشریق کہتے ہیں۔