كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الفُتْيَا عَلَى الدَّابَّةِ عِنْدَ الجَمْرَةِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ تَابَعَهُ مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب : جمرہ کے پاس سوار رہ کر لوگوں کو مسئلہ بتانا
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، ان سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے او ران سے عیسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سواری پر سوا رہو کر ٹھہرے رہے پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس کی متابعت معمر نے زہری سے روایت کرکے کی ہے۔
تشریح :
شریعت کی اس سادگی اور آسانی کا اظہار مقصود ہے جو اس نے تعلیم، تعلم، افتاءو ارشاد کے سلسلہ میں سامنے رکھی ہے۔ بعض روایتوں میں ایسا بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سواری پر نہ تھے بلکہ بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کے مسائل بتلا رہے تھے۔ سو تطبیق یہ ہے کہ کچھ وقت سواری پر بیٹھ کر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسائل بتلائے ہوں، بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر نیچے بیٹھ گئے ہوں۔ جس راوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس حال میں دیکھا بیان کر دیا۔
شریعت کی اس سادگی اور آسانی کا اظہار مقصود ہے جو اس نے تعلیم، تعلم، افتاءو ارشاد کے سلسلہ میں سامنے رکھی ہے۔ بعض روایتوں میں ایسا بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سواری پر نہ تھے بلکہ بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کے مسائل بتلا رہے تھے۔ سو تطبیق یہ ہے کہ کچھ وقت سواری پر بیٹھ کر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسائل بتلائے ہوں، بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر نیچے بیٹھ گئے ہوں۔ جس راوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس حال میں دیکھا بیان کر دیا۔