كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الحَلْقِ وَالتَّقْصِيرِ عِنْدَ الإِحْلاَلِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ قَصَّرْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِشْقَصٍ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب : احرام کھولتے وقت بال منڈانا یا ترشوانا
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے حسن بن مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے بیان کیا، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ان سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے کاٹے تھے۔
تشریح :
ارکان حج کی بجاآوری کے بعد حاجی کو سر کے بال منڈانے ہیں یا کتروانے، ہر دو صورتیں جائز ہیں، مگر منڈانے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار مغفرت کی دعا فرمائی اور کتروانے والوں کے لیے ایک بار، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنداللہ اس موقع پر بالوں کا منڈوانا زیادہ محبوب ہے۔ اس روایت میں حضرت معاویہ کا بیان وارد ہوتا ہے، اس کے وقت کی تعیین کرنے میں شارحین کے مختلف اقوال ہیں۔ یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے متعلق نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہو کیوں کہ اصحاب سیر کے بیان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے بھی حج کئے ہیں۔ علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ و قد اخرج ابن عساکر فی تاریخ دمشق من ترجمۃ معاویۃ تصریح بانہ اسلم بین الحدیبیۃ و القضیۃ و انہ کان یخفی اسلامہ خوفاً من ابویہ و کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما دخل فی عمرۃ القضیۃ مکۃ خرج اکثر اہلہا عنہا حتی لا ینظرونہ و اصحابہ یطوفون بالبیت فلعل معاویۃ کان ممن تخلف بمکۃ لسبب اقتضاہ و لا یعارضہ ایضا قول سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فیما اخرجہ مسلم وغیرہ فعلناہا یعنی العمرۃ فی الشہر الحج و ہذا یومئذ کافر بالعرش بضمتین یعنی بیوت مکۃ یشیر الی معاویۃ لانہ یحمل علی انہ اخبر بما استصحب من حالہ ولم یطلع علی اسلامہ لکونہ کان یخفیہ و ینکر علی ماجوزوہ ان تقصیرہ کان فی عمرہ الجعرانۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رکب من الجعرانۃ بعد ان احرم بعمرۃ و لم یستصحب احداذ معہ الا بعض اصحابہ المہاجرین فقدم مکۃ فطاف و سعی حلق و رجع الی الجعرانۃ فاصبح بہا کبائت فخفیت عمرتہ علی کثیر من الناس کذا اخرجہ الترمذی و غیرہ و لم یعد معاویۃ فیمن کان صحبہ حینئذ و لا کان معاویۃ فیمن تخلف عنہ بمکۃ فی غزوۃ حنین حتی یقال لعلہ وجدہ بمکۃ بل کان مع القوم و اعطاہ مثل ما اعطی اباہ من الغنیمۃ مع جملۃ المولفۃ واخرج الحاکم فی الاکلیل فی اخر قصۃ غزوۃ حنین ان الذی حلق راسہ صلی اللہ علیہ وسلم فی عمرتہ التی اعتمرہا من الجعرانۃ ابوہند عبد بنی بیاضۃ فان ثبت ہذا و ثبت ان معاویۃ کان حینئذ معہ او کان بمکۃ فقصر عنہ بالمروۃ امکن الجمع بان یکون معاویۃ قصر عنہ اولا و کان الحلاق غائبا فی بعض حاجتہ ثم حضر فائرہ ان یکمل ازالۃ الشعر بالحلق لانہ افضل ففعل و ان ثبت ان ذالک کان فی عمرۃ القضیۃ و ثبت انہ صلی اللہ علیہ وسلم حلق فیہا جاءہذا الاحتمال بعینہ و حصل التوفیق بین الاخبا رکلہا و ہذا مما فتح اللہ علّی بہ فی ہذا الفتح و للہ الحمد ثم للہ الحمد ابدا ( فتح الباری )
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سال حدیبیہ اور سال عمرۃ القضاءکے درمیان اسلام لا چکے تھے، مگر وہ والدین کے ڈر سے اپنے اسلام کو ظاہر نہیں کر رہے تھے، عمرۃ القضاءمیں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طواف کعبہ میں مشغول تھے تمام کفار مکہ شہر چھوڑ کر باہر چلے گئے تاکہ وہ اہل اسلام کو دیکھ نہ سکیں اس موقع پر شاید حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مکہ شریف ہی میں رہ گئے ہوں ( اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ بھی اسی وقت سے تعلق رکھتا ہو ) اور سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کا وہ قول جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس کے خلاف نہیں ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عمرۃ القضاءکے موقع پر مکہ شریف کے کسی گھر میں چھت پر چھپے ہوئے تھے۔ یہ اس لیے کہ وہ اپنے اسلام کو اپنے رشتہ داروں سے ابھی تک پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور جس نے اس واقعہ کو عمرہ جعرانہ سے متعلق بتلایا ہے وہ درست نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ اس موقع پر جو صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار نہیں ہے اور غزوہ حنین کے موقع پر انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مال غنیمت سے مولفین میں شامل ہو کر حصہ لیا تھا۔ غزوہ حنین کے قصہ کے آخر میں حاکم نے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مونڈنے والا بنی بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند تھا، اگر یہ ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہو جائے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یا مکہ میں موجود تھے تو یہ امکان ہے کہ انہوں نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے کترے ہوں اور حلاق اس وقت غائب رہاہو پھر اس کے آجانے پر اس سے کرایا ہو کیوں کہ حلق افضل ہے اور اگر یہ عمرۃ القضیہ میں ثابت ہو جب کہ وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلق ثابت ہے تو یہ احتمال صحیح ہے کہ اس موقع پر انہوں نے یہ خدمت انجام دی ہو۔ مختلف روایات میں تطیبق کی یہ توفیق محض اللہ کے فضل سے حاصل ہوئی ہے۔ و للہ الحمد۔
ارکان حج کی بجاآوری کے بعد حاجی کو سر کے بال منڈانے ہیں یا کتروانے، ہر دو صورتیں جائز ہیں، مگر منڈانے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار مغفرت کی دعا فرمائی اور کتروانے والوں کے لیے ایک بار، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنداللہ اس موقع پر بالوں کا منڈوانا زیادہ محبوب ہے۔ اس روایت میں حضرت معاویہ کا بیان وارد ہوتا ہے، اس کے وقت کی تعیین کرنے میں شارحین کے مختلف اقوال ہیں۔ یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے متعلق نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہو کیوں کہ اصحاب سیر کے بیان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے بھی حج کئے ہیں۔ علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ و قد اخرج ابن عساکر فی تاریخ دمشق من ترجمۃ معاویۃ تصریح بانہ اسلم بین الحدیبیۃ و القضیۃ و انہ کان یخفی اسلامہ خوفاً من ابویہ و کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما دخل فی عمرۃ القضیۃ مکۃ خرج اکثر اہلہا عنہا حتی لا ینظرونہ و اصحابہ یطوفون بالبیت فلعل معاویۃ کان ممن تخلف بمکۃ لسبب اقتضاہ و لا یعارضہ ایضا قول سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فیما اخرجہ مسلم وغیرہ فعلناہا یعنی العمرۃ فی الشہر الحج و ہذا یومئذ کافر بالعرش بضمتین یعنی بیوت مکۃ یشیر الی معاویۃ لانہ یحمل علی انہ اخبر بما استصحب من حالہ ولم یطلع علی اسلامہ لکونہ کان یخفیہ و ینکر علی ماجوزوہ ان تقصیرہ کان فی عمرہ الجعرانۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رکب من الجعرانۃ بعد ان احرم بعمرۃ و لم یستصحب احداذ معہ الا بعض اصحابہ المہاجرین فقدم مکۃ فطاف و سعی حلق و رجع الی الجعرانۃ فاصبح بہا کبائت فخفیت عمرتہ علی کثیر من الناس کذا اخرجہ الترمذی و غیرہ و لم یعد معاویۃ فیمن کان صحبہ حینئذ و لا کان معاویۃ فیمن تخلف عنہ بمکۃ فی غزوۃ حنین حتی یقال لعلہ وجدہ بمکۃ بل کان مع القوم و اعطاہ مثل ما اعطی اباہ من الغنیمۃ مع جملۃ المولفۃ واخرج الحاکم فی الاکلیل فی اخر قصۃ غزوۃ حنین ان الذی حلق راسہ صلی اللہ علیہ وسلم فی عمرتہ التی اعتمرہا من الجعرانۃ ابوہند عبد بنی بیاضۃ فان ثبت ہذا و ثبت ان معاویۃ کان حینئذ معہ او کان بمکۃ فقصر عنہ بالمروۃ امکن الجمع بان یکون معاویۃ قصر عنہ اولا و کان الحلاق غائبا فی بعض حاجتہ ثم حضر فائرہ ان یکمل ازالۃ الشعر بالحلق لانہ افضل ففعل و ان ثبت ان ذالک کان فی عمرۃ القضیۃ و ثبت انہ صلی اللہ علیہ وسلم حلق فیہا جاءہذا الاحتمال بعینہ و حصل التوفیق بین الاخبا رکلہا و ہذا مما فتح اللہ علّی بہ فی ہذا الفتح و للہ الحمد ثم للہ الحمد ابدا ( فتح الباری )
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سال حدیبیہ اور سال عمرۃ القضاءکے درمیان اسلام لا چکے تھے، مگر وہ والدین کے ڈر سے اپنے اسلام کو ظاہر نہیں کر رہے تھے، عمرۃ القضاءمیں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طواف کعبہ میں مشغول تھے تمام کفار مکہ شہر چھوڑ کر باہر چلے گئے تاکہ وہ اہل اسلام کو دیکھ نہ سکیں اس موقع پر شاید حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مکہ شریف ہی میں رہ گئے ہوں ( اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ بھی اسی وقت سے تعلق رکھتا ہو ) اور سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کا وہ قول جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس کے خلاف نہیں ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عمرۃ القضاءکے موقع پر مکہ شریف کے کسی گھر میں چھت پر چھپے ہوئے تھے۔ یہ اس لیے کہ وہ اپنے اسلام کو اپنے رشتہ داروں سے ابھی تک پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور جس نے اس واقعہ کو عمرہ جعرانہ سے متعلق بتلایا ہے وہ درست نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ اس موقع پر جو صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار نہیں ہے اور غزوہ حنین کے موقع پر انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مال غنیمت سے مولفین میں شامل ہو کر حصہ لیا تھا۔ غزوہ حنین کے قصہ کے آخر میں حاکم نے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مونڈنے والا بنی بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند تھا، اگر یہ ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہو جائے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یا مکہ میں موجود تھے تو یہ امکان ہے کہ انہوں نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے کترے ہوں اور حلاق اس وقت غائب رہاہو پھر اس کے آجانے پر اس سے کرایا ہو کیوں کہ حلق افضل ہے اور اگر یہ عمرۃ القضیہ میں ثابت ہو جب کہ وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلق ثابت ہے تو یہ احتمال صحیح ہے کہ اس موقع پر انہوں نے یہ خدمت انجام دی ہو۔ مختلف روایات میں تطیبق کی یہ توفیق محض اللہ کے فضل سے حاصل ہوئی ہے۔ و للہ الحمد۔