‌صحيح البخاري - حدیث 1727

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الحَلْقِ وَالتَّقْصِيرِ عِنْدَ الإِحْلاَلِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُمَّ ارْحَمْ الْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ اللَّهُمَّ ارْحَمْ الْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَالْمُقَصِّرِينَ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي نَافِعٌ رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ قَالَ وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ وَقَالَ فِي الرَّابِعَةِ وَالْمُقَصِّرِينَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1727

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب : احرام کھولتے وقت بال منڈانا یا ترشوانا ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اور کتروانے والوں پر؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اب بھی دعا کی اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر عرض کی اور کتروانے والوں پر؟ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کتروانے والوں پر بھی، لیث نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ نے سر منڈوانے والوں پر رحم کیا ایک یا دو مرتبہ، انہوں نے بیان کیا کہ عبید اللہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ چوتھی مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کتروانے والوں پر بھی۔
تشریح : یعنی لیث کو اس میں شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈانے والوں کے لیے ایک بار دعا کی یا دو بار، اور اکثر راویوں کا اتفاق امام مالک کی راویت پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈانے والوں کے لیے دو بار دعا کی اور تیسری بار کتروانے والوں کو بھی شریک کر لیا۔ عبید اللہ کی روایت میں ہے کہ چوتھی بار میں کتروانے والوں کو شریک کیا۔ بہرحال حدیث سے یہ نکلا کہ سر منڈانا بال کتروانے سے افضل ہے، امام مالک اور امام احمد کہتے ہیں کہ سارا سر منڈائے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک چوتھائی سر منڈانا کافی ہے اور امام ابویوسف کے نزدیک تین بال منڈانا کافی ہے۔ بعض شافعیہ نے ایک بال منڈانا بھی کافی سمجھا ہے اور عورتوں کو بال کترانا چاہئیے ان کو سر منڈانا منع ہے۔ ( وحیدی ) سر منڈانے یا بال کتروانے کا واقعہ حجۃ الوداع سے متعلق ہے اور حدیبیہ سے بھی جب کہ مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ سے روک دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان حدیبیہ ہی میں حلق اور قربانی کی اب بھی جو لوگ راستے میں حج عمرہ سے روک دئیے جاتے ہیں ان کے لیے یہی حکم ہے۔ حافظ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں و اما السبب فی تکریر الدعاءللمحلقین فی حجۃ الوداع فقال ابن اثیر فی النہایۃ کان اکثر من حج مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم یسق الہدی فلما امرہم ان یفسخوا الحج الی العمرۃ ثم یتحللوا منہا و یحلقوا روسہم شق علیہم ثم لما لم یکن لہم بد من الطاعۃ کان التقصیر فی انفسہم اخف من الحلق ففعلہ اکثرہم فرجح النبی صلی اللہ علیہ وسلم فعل من حلق لکونہ بین فی امتثال الامر انتہی ( یعنی سر منڈاونے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت دعا فرمائی کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکثر حاجی وہ تھے جو اپنے ساتھ ہدی لے کر نہیں آئے تھے پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حج کے فسخ کرنے اور عمرہ کر لینے اور احرام کھول دینے اور سرمنڈوانے کا حکم فرمایا تو یہ امر ان پر بار گزرا پھر ان کے لیے امتثال امر بھی ضروری تھا اس لیے ان کو حلق سے تقصیر میں کچھ آسانی نظر آئی، پس اکثر نے یہی کیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈوانے والوں کے فعل کو ترجیح فرمائی اس لیے کہ یہ امتثال امر میں زیادہ ظاہر با ت تھی ) عربوں کی عادت بھی اکثر بالوں کو بڑھانے ان سے زینت حاصل کرنے کی تھی اور سرمنڈانے کا رواج ان میں کم تھا وہ بالوں کو عجمیوں کی شہرت کا ذریعہ بھی گردانتے اور ان کی نقل اپنے لیے باعث شہرت سمجھتے تھے۔ اس لیے ان میں سے اکثر سر منڈانے کو مکروہ جانتے اور بال کتروانے پر کفایت کرنا پسند کرتے تھے۔ حدیث بالا سے ایسے لوگوں کے لیے دعا کرنا بھی ثابت ہوا جو بہتر سے بہتر کاموں کے لیے آمادہ ہوں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ امر مرجوح پر عمل کرنے والوں کے لیے بھی دعائے خیر کی درخواست کی جا سکتی ہے یہ بھی ثابت ہوا کہ حلق کی جگہ تقصیر بھی کافی ہے مگر بہتر حلق ہی ہے۔ یعنی لیث کو اس میں شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈانے والوں کے لیے ایک بار دعا کی یا دو بار، اور اکثر راویوں کا اتفاق امام مالک کی راویت پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈانے والوں کے لیے دو بار دعا کی اور تیسری بار کتروانے والوں کو بھی شریک کر لیا۔ عبید اللہ کی روایت میں ہے کہ چوتھی بار میں کتروانے والوں کو شریک کیا۔ بہرحال حدیث سے یہ نکلا کہ سر منڈانا بال کتروانے سے افضل ہے، امام مالک اور امام احمد کہتے ہیں کہ سارا سر منڈائے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک چوتھائی سر منڈانا کافی ہے اور امام ابویوسف کے نزدیک تین بال منڈانا کافی ہے۔ بعض شافعیہ نے ایک بال منڈانا بھی کافی سمجھا ہے اور عورتوں کو بال کترانا چاہئیے ان کو سر منڈانا منع ہے۔ ( وحیدی ) سر منڈانے یا بال کتروانے کا واقعہ حجۃ الوداع سے متعلق ہے اور حدیبیہ سے بھی جب کہ مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ سے روک دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان حدیبیہ ہی میں حلق اور قربانی کی اب بھی جو لوگ راستے میں حج عمرہ سے روک دئیے جاتے ہیں ان کے لیے یہی حکم ہے۔ حافظ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں و اما السبب فی تکریر الدعاءللمحلقین فی حجۃ الوداع فقال ابن اثیر فی النہایۃ کان اکثر من حج مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم یسق الہدی فلما امرہم ان یفسخوا الحج الی العمرۃ ثم یتحللوا منہا و یحلقوا روسہم شق علیہم ثم لما لم یکن لہم بد من الطاعۃ کان التقصیر فی انفسہم اخف من الحلق ففعلہ اکثرہم فرجح النبی صلی اللہ علیہ وسلم فعل من حلق لکونہ بین فی امتثال الامر انتہی ( یعنی سر منڈاونے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت دعا فرمائی کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکثر حاجی وہ تھے جو اپنے ساتھ ہدی لے کر نہیں آئے تھے پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حج کے فسخ کرنے اور عمرہ کر لینے اور احرام کھول دینے اور سرمنڈوانے کا حکم فرمایا تو یہ امر ان پر بار گزرا پھر ان کے لیے امتثال امر بھی ضروری تھا اس لیے ان کو حلق سے تقصیر میں کچھ آسانی نظر آئی، پس اکثر نے یہی کیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈوانے والوں کے فعل کو ترجیح فرمائی اس لیے کہ یہ امتثال امر میں زیادہ ظاہر با ت تھی ) عربوں کی عادت بھی اکثر بالوں کو بڑھانے ان سے زینت حاصل کرنے کی تھی اور سرمنڈانے کا رواج ان میں کم تھا وہ بالوں کو عجمیوں کی شہرت کا ذریعہ بھی گردانتے اور ان کی نقل اپنے لیے باعث شہرت سمجھتے تھے۔ اس لیے ان میں سے اکثر سر منڈانے کو مکروہ جانتے اور بال کتروانے پر کفایت کرنا پسند کرتے تھے۔ حدیث بالا سے ایسے لوگوں کے لیے دعا کرنا بھی ثابت ہوا جو بہتر سے بہتر کاموں کے لیے آمادہ ہوں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ امر مرجوح پر عمل کرنے والوں کے لیے بھی دعائے خیر کی درخواست کی جا سکتی ہے یہ بھی ثابت ہوا کہ حلق کی جگہ تقصیر بھی کافی ہے مگر بہتر حلق ہی ہے۔