‌صحيح البخاري - حدیث 1723

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الذَّبْحِ قَبْلَ الحَلْقِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَمَيْتُ بَعْدَ مَا أَمْسَيْتُ فَقَالَ لَا حَرَجَ قَالَ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ قَالَ لَا حَرَجَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1723

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب : سر منڈانے سے پہلے ذبح کرنا ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے مسئلہ پوچھا کہ شام ہونے کے بعد میں نے رمی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ سائل نے کہا کہ قربانی کرنے سے پہلے میں نے سر منڈا لیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔
تشریح : قسطلانی نے کہا رمی کرنے کا افضل وقت زوال تک ہے اور غروب آفتاب سے قبل تک بھی عمدہ ہے اور اس کے بعد بھی جائز ہے اور حلق اور قصر اور طواف الزیارۃ کا وقت معین نہیں، لیکن یو م النحر سے ان کی تاخیر کرنا مکروہ ہے اور ایام تشرقی سے تاخیر کرنا سخت مکروہ ہے۔ غرض یوم النحر کے دن حاجی کو چار کام کرنے ہوتے ہیں رمی اور قربانی اور حلق یا قصر، ان چاروں میں سے ترتیب سنت ہے، لیکن فرض نہیں، اگر کوئی کام دوسرے سے آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ ان حدیثوں سے نکلتا ہے۔ امام مالک اور شافعی اور اسحاق اور ہمارے امام احمد بن حنبل سب کا یہی قول ہے اور امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس پر دم لازم آئے گا اور اگر قارن ہے تو دودم لازم آئیں گے۔ ( وحیدی ) جب شارع علیہ السلام نے خود ایسی حالتوں میں لا حرج فرما دیا تو ایسے مواقع پر ایک یا دو دم لازم کرنا صحیح نہیں ہے آج کل معلمین حاجیوں کو ان بہانوں سے جس قدر پریشان کرتے ہیں اور ان سے روپیہ اینٹھتے ہیں یہ سب حرکتیں سخت ناپسندیدہ ہیں۔ فی الواقع کوئی شرعی کوتاہی قابل دم ہو تو وہ تو اپنی جگہ پر ٹھیک ہے مگر خواہ مخواہ ایسی چیزیں از خود پیدا کرنا بہت ہی معیوب ہے۔ اس حدیث سے مفتیان اسلام کو بھی سبق ملتا ہے، جہاں تک ممکن ہو فتوی دریافت کرنے والوں کے لیے کتاب و سنت کی روشنی میں آسانی و نرمی کا پہلو اختیار کریں مگر حدود شرعیہ میں کوئی بھی نرمی نہ ہونی چاہئے۔ قسطلانی نے کہا رمی کرنے کا افضل وقت زوال تک ہے اور غروب آفتاب سے قبل تک بھی عمدہ ہے اور اس کے بعد بھی جائز ہے اور حلق اور قصر اور طواف الزیارۃ کا وقت معین نہیں، لیکن یو م النحر سے ان کی تاخیر کرنا مکروہ ہے اور ایام تشرقی سے تاخیر کرنا سخت مکروہ ہے۔ غرض یوم النحر کے دن حاجی کو چار کام کرنے ہوتے ہیں رمی اور قربانی اور حلق یا قصر، ان چاروں میں سے ترتیب سنت ہے، لیکن فرض نہیں، اگر کوئی کام دوسرے سے آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ ان حدیثوں سے نکلتا ہے۔ امام مالک اور شافعی اور اسحاق اور ہمارے امام احمد بن حنبل سب کا یہی قول ہے اور امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس پر دم لازم آئے گا اور اگر قارن ہے تو دودم لازم آئیں گے۔ ( وحیدی ) جب شارع علیہ السلام نے خود ایسی حالتوں میں لا حرج فرما دیا تو ایسے مواقع پر ایک یا دو دم لازم کرنا صحیح نہیں ہے آج کل معلمین حاجیوں کو ان بہانوں سے جس قدر پریشان کرتے ہیں اور ان سے روپیہ اینٹھتے ہیں یہ سب حرکتیں سخت ناپسندیدہ ہیں۔ فی الواقع کوئی شرعی کوتاہی قابل دم ہو تو وہ تو اپنی جگہ پر ٹھیک ہے مگر خواہ مخواہ ایسی چیزیں از خود پیدا کرنا بہت ہی معیوب ہے۔ اس حدیث سے مفتیان اسلام کو بھی سبق ملتا ہے، جہاں تک ممکن ہو فتوی دریافت کرنے والوں کے لیے کتاب و سنت کی روشنی میں آسانی و نرمی کا پہلو اختیار کریں مگر حدود شرعیہ میں کوئی بھی نرمی نہ ہونی چاہئے۔