كِتَابُ الحَجِّ بَابٌ: يُتَصَدَّقُ بِجُلُودِ الهَدْيِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ وَعَبْدُ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيُّ أَنَّ مُجَاهِدًا أَخْبَرَهُمَا أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب : قربانی کی کھال خیرات کردی جائے گی
ہم سے مسدد نے بیان کیاکہا کہ، ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حسن بن مسلم اور عبدالکریم جزری نے خبر دی کہ مجاہد نے ان دونوں کو خبر دی، انہیں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے خبر دی، انہیں علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کریں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی ہر چیز گوشت چمڑے اور جھول خیرات کردیں اور قصائی کی مزدوری اس میں سے نہ دیں۔
تشریح :
یہ وہ اونٹ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں قربانی کے لیے لے گئے تھے، دوسری روایت میں ہے کہ یہ سو اونٹ تھے ان میں سے تریسٹھ اونٹوں کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے نحر کیا، باقی اونٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر کر دیا۔ ( وحیدی )
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ثم اعطی علیا فنحر ما عبروا شرکہ فی ہدیہ ثم امر من کل بدنۃ ببضعۃ فجعلت فی قدر فطبخت فاکلا من لحمہا و شربا من مرقہا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقایا اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ کر دئیے اور انہوں نے ان کو نحر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ہدی میں شریک کیا پھر ہر ہر اونٹ سے ایک ایک بوٹی لے کر ہانڈی میں اسے پکایا گیا پس آپ دونوں نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ یہ کل سو اونٹ تھے جن میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ اونٹ نحر فرمائے باقی حضرت رضی اللہ عنہ نے نحر کئے۔ قال البغوی فی شرح السنہ و اما اذا اعطی اجرتہ کاملۃ ثم تصدق علیہ اذا کان فقیراً کما تصدق علی الفقراءفلا باس بذلک ( فتح ) یعنی امام بغوی نے شرح السنہ میں کہا کہ قصائی کو پوری اجرت دینے کے بعد اگر وہ فقیر ہے تو بطور صدقہ قربانی کا گوشت دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ و قد اتفقوا علی ان لحمہا لا یباع فکذلک الجلود و الجلال و اجازہ الاوزاعی و احمد و اسحاق و ابوثور ( فتح ) یعنی اس پر اتفاق ہے کہ قربانی کا گوشت بیچا نہیں جاسکتا اس کے چمڑے اور جھول کا بھی یہی حکم ہے مگر ان چیزوں کو امام اوزاعی اور احمد و اسحق اور ابوثور نے جائز کہا ہے کہ چمڑا اور جھول بیچ کر قربانی کے مستحقین میں خرچ کردیا جائے۔
یہ وہ اونٹ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں قربانی کے لیے لے گئے تھے، دوسری روایت میں ہے کہ یہ سو اونٹ تھے ان میں سے تریسٹھ اونٹوں کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے نحر کیا، باقی اونٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر کر دیا۔ ( وحیدی )
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ثم اعطی علیا فنحر ما عبروا شرکہ فی ہدیہ ثم امر من کل بدنۃ ببضعۃ فجعلت فی قدر فطبخت فاکلا من لحمہا و شربا من مرقہا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقایا اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ کر دئیے اور انہوں نے ان کو نحر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ہدی میں شریک کیا پھر ہر ہر اونٹ سے ایک ایک بوٹی لے کر ہانڈی میں اسے پکایا گیا پس آپ دونوں نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ یہ کل سو اونٹ تھے جن میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ اونٹ نحر فرمائے باقی حضرت رضی اللہ عنہ نے نحر کئے۔ قال البغوی فی شرح السنہ و اما اذا اعطی اجرتہ کاملۃ ثم تصدق علیہ اذا کان فقیراً کما تصدق علی الفقراءفلا باس بذلک ( فتح ) یعنی امام بغوی نے شرح السنہ میں کہا کہ قصائی کو پوری اجرت دینے کے بعد اگر وہ فقیر ہے تو بطور صدقہ قربانی کا گوشت دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ و قد اتفقوا علی ان لحمہا لا یباع فکذلک الجلود و الجلال و اجازہ الاوزاعی و احمد و اسحاق و ابوثور ( فتح ) یعنی اس پر اتفاق ہے کہ قربانی کا گوشت بیچا نہیں جاسکتا اس کے چمڑے اور جھول کا بھی یہی حکم ہے مگر ان چیزوں کو امام اوزاعی اور احمد و اسحق اور ابوثور نے جائز کہا ہے کہ چمڑا اور جھول بیچ کر قربانی کے مستحقین میں خرچ کردیا جائے۔