‌صحيح البخاري - حدیث 1709

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ ذَبْحِ الرَّجُلِ البَقَرَ عَنْ نِسَائِهِ مِنْ غَيْرِ أَمْرِهِنَّ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَتْ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ لَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ إِذَا طَافَ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَنْ يَحِلَّ قَالَتْ فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ فَقُلْتُ مَا هَذَا قَالَ نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ قَالَ يَحْيَى فَذَكَرْتُهُ لِلْقَاسِمِ فَقَالَ أَتَتْكَ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1709

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب : کسی آدمی کا اپنی بیویوں کی طرف سے ان کی اجازت بغیر گائے کی قربانی کرنا ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمن نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے ) نکلے تو ذی قعدہ میں سے پانچ دن باقی رہے تھے ہم صرف حج کا ارادہ لے کر نکلے تھے، جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ جب طواف کرلیں اور صفا و مروہ کی سعی بھی کرلیں تو حلال ہو جائیں گے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ قربانی کے دن ہمارے گھر گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ (لانے والے نے بتلایا ) کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے یہ قربانی کی ہے، یحییٰ نے کہا کہ میں نے عمرہ کی یہ حدیث قاسم سے بیان کی انہوں نے کہا عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کیا ہے۔
تشریح : یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ترجمہ باب تو گائے کا ذبح کرنا مذکور ہے اور حدیث میں نحر کا لفظ ہے تو حدیث باب سے مطابق نہیں ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں نحر سے ذبح مراد ہے چنانچہ اس حدیث کے دوسرے طریق میں جو آگے مذکور ہوگا ذبح کا لفظ ہے اور گائے کا نحر کرنا بھی جائز ہے مگر ذبح کرنا علماءنے بہتر سمجھا ہے اور قرآن شریف میں بھی ان تذبحوا بقرۃ ( البقرۃ : 67 ) وارد ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اپنی تمام ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائی تھی، گائے میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ مسلمہ ہے، حج کے موقع پر تو یہ ہر مسلمان کرسکتا ہے مگر عید الاضحی پر یہاں اپنا ہاں کے ملکی قانون ( بھارتی قانون ) کی بنا پر بہتر یہی ہے کہ صرف بکرے یا دنبہ کی قربانی کی جائے اور گائے کی قربانی نہ کی جائے جس سے یہاں بہت سے مفاسد کا خطرہ ہے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا قرآنی اصول ہے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اما التعبیر بالذبح مع ان حدیث الباب بلفظ النحر فاشارۃ الی ما ورد فی بعض طرقہ بالذبح و سیاتی بعد سبعۃ ابواب من طریق سلیمان بن بلال عن یحییٰ بن سعید و نحر البقر جائز عندالعماءالا ان الذبح مستحب عندہم لقولہ تعالیٰ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ و خالف الحسن بن صالح فاستحب نحرہا و اما قولہ من غیر امرہن فاخذہ من استفہام عائشۃ عن اللحم لما دخل بہ علیہا و لو کان ذبحہ بعلمہا لم تحتج الی الاستفہام لکن لیس ذلک دافعا للاحتمال فیجوز ان یکون علمہا بذلک تقدم بان یکون استاذنہن فی ذلک لکن لما ادخل اللہم علیہا احتمل سندہا ان یکون ہو الذی وقع الاستیدان فیہ و ان یکون غیر ذلک فاستفہمت عنہ لذلک ( فتح ) یعنی حدیث الباب میں لفظ نحر کو ذبح سے تعبیر کرنا حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں بجائے نحر کے لفظ ذبح ہی وارد ہوا ہے جیسا کہ عنقریب وہ حدیث آئے گی۔ گائے کا نحر کرنا بھی علماءکے نزدیک جائز ہے مگر مستحب ذبح کرنا ہے کیوں کہ بمطابق آیت قرآنی ”بے شک اللہ تمہیں گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے“ یہاں لفظ ذبح گائے کے لیے استعمال ہوا ہے، حسن بن صالح نے نحر کو مستحب قرار دیا ہے اور باب میں لفظ” من غیر امرہن“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استفہام سے لیا گیا ہے کہ جب وہ گوشت آیا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے اگر ان کے علم سے ذبح ہوتا تو استفہام کی حاجت نہ ہوتی، لیکن اس توجیہ سے احتمال دفع نہیں ہوتا، پس ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہلے ہی اس کا علم ہو جب کہ ان سے اجازت لے کر ہی یہ قربانی ان کی طرف سے کی گئی ہوگی۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خیال ہوا کہ یہ وہی اجازت والی قربانی کا گوشت ہے یا اس کے سوا اور کوئی ہے اسی لیے انہوں نے دریافت فرمایا، اس توجیہ سے یہ اعتراض بھی دفع ہو گیا کہ جب بغیر اجازت کے قربانی جائزنہیں جن کی طرف سے کی جارہی ہے تو یہ قربانی ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیوں کر جائز ہوگی۔ پس ان کی اجازت ہی سے کی گئی مگر گوشت آتے وقت انہوں نے تحقیق کے لیے دریافت کیا۔ یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ترجمہ باب تو گائے کا ذبح کرنا مذکور ہے اور حدیث میں نحر کا لفظ ہے تو حدیث باب سے مطابق نہیں ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں نحر سے ذبح مراد ہے چنانچہ اس حدیث کے دوسرے طریق میں جو آگے مذکور ہوگا ذبح کا لفظ ہے اور گائے کا نحر کرنا بھی جائز ہے مگر ذبح کرنا علماءنے بہتر سمجھا ہے اور قرآن شریف میں بھی ان تذبحوا بقرۃ ( البقرۃ : 67 ) وارد ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اپنی تمام ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائی تھی، گائے میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ مسلمہ ہے، حج کے موقع پر تو یہ ہر مسلمان کرسکتا ہے مگر عید الاضحی پر یہاں اپنا ہاں کے ملکی قانون ( بھارتی قانون ) کی بنا پر بہتر یہی ہے کہ صرف بکرے یا دنبہ کی قربانی کی جائے اور گائے کی قربانی نہ کی جائے جس سے یہاں بہت سے مفاسد کا خطرہ ہے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا قرآنی اصول ہے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اما التعبیر بالذبح مع ان حدیث الباب بلفظ النحر فاشارۃ الی ما ورد فی بعض طرقہ بالذبح و سیاتی بعد سبعۃ ابواب من طریق سلیمان بن بلال عن یحییٰ بن سعید و نحر البقر جائز عندالعماءالا ان الذبح مستحب عندہم لقولہ تعالیٰ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ و خالف الحسن بن صالح فاستحب نحرہا و اما قولہ من غیر امرہن فاخذہ من استفہام عائشۃ عن اللحم لما دخل بہ علیہا و لو کان ذبحہ بعلمہا لم تحتج الی الاستفہام لکن لیس ذلک دافعا للاحتمال فیجوز ان یکون علمہا بذلک تقدم بان یکون استاذنہن فی ذلک لکن لما ادخل اللہم علیہا احتمل سندہا ان یکون ہو الذی وقع الاستیدان فیہ و ان یکون غیر ذلک فاستفہمت عنہ لذلک ( فتح ) یعنی حدیث الباب میں لفظ نحر کو ذبح سے تعبیر کرنا حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں بجائے نحر کے لفظ ذبح ہی وارد ہوا ہے جیسا کہ عنقریب وہ حدیث آئے گی۔ گائے کا نحر کرنا بھی علماءکے نزدیک جائز ہے مگر مستحب ذبح کرنا ہے کیوں کہ بمطابق آیت قرآنی ”بے شک اللہ تمہیں گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے“ یہاں لفظ ذبح گائے کے لیے استعمال ہوا ہے، حسن بن صالح نے نحر کو مستحب قرار دیا ہے اور باب میں لفظ” من غیر امرہن“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استفہام سے لیا گیا ہے کہ جب وہ گوشت آیا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے اگر ان کے علم سے ذبح ہوتا تو استفہام کی حاجت نہ ہوتی، لیکن اس توجیہ سے احتمال دفع نہیں ہوتا، پس ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہلے ہی اس کا علم ہو جب کہ ان سے اجازت لے کر ہی یہ قربانی ان کی طرف سے کی گئی ہوگی۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خیال ہوا کہ یہ وہی اجازت والی قربانی کا گوشت ہے یا اس کے سوا اور کوئی ہے اسی لیے انہوں نے دریافت فرمایا، اس توجیہ سے یہ اعتراض بھی دفع ہو گیا کہ جب بغیر اجازت کے قربانی جائزنہیں جن کی طرف سے کی جارہی ہے تو یہ قربانی ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیوں کر جائز ہوگی۔ پس ان کی اجازت ہی سے کی گئی مگر گوشت آتے وقت انہوں نے تحقیق کے لیے دریافت کیا۔