كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَنِ اشْتَرَى هَدْيَهُ مِنَ الطَّرِيقِ وَقَلَّدَهَا صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا الْحَجَّ عَامَ حَجَّةِ الْحَرُورِيَّةِ فِي عَهْدِ ابْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقِيلَ لَهُ إِنَّ النَّاسَ كَائِنٌ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ وَنَخَافُ أَنْ يَصُدُّوكَ فَقَالَ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ إِذًا أَصْنَعَ كَمَا صَنَعَ أُشْهِدُكُمْ أَنِّي أَوْجَبْتُ عُمْرَةً حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَاهِرِ الْبَيْدَاءِ قَالَ مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ إِلَّا وَاحِدٌ أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ جَمَعْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَةٍ وَأَهْدَى هَدْيًا مُقَلَّدًا اشْتَرَاهُ حَتَّى قَدِمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ وَلَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَوْمِ النَّحْرِ فَحَلَقَ وَنَحَرَ وَرَأَى أَنْ قَدْ قَضَى طَوَافَهُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ بِطَوَافِهِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قَالَ كَذَلِكَ صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب : اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی ہدی راستہ میں خریدی او راسے ہار پہنایا
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میںحجۃ الحروریہ کے سال حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ لوگوں میں باہم قتل و خون ہونے والا ہے اور ہم کو خطرہ اس کا ہے کہ آپ کو (مفسد لوگ حج سے ) روک دیں، آپ نے جواب میں یہ آیت سنائی کہ ” تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ “ اس وقت میں بھی وہی کام کروں گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے، پھر جب آپ بیداءکے بالائی حصہ تک پہنچے تو فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ میں نے حج کو بھی جمع کر لیا ہے، پھر آپ نے ایک ہدی بھی ساتھ لے لی جسے ہار پہنایا گیا تھا۔ آپ نے اسے خرید لیا یہاں تک کہ آپ مکہ آئے تو بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کی، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جو چیزیں (احرام کی وجہ سے ان پر ) حرام تھیں ان میں سے کسی سے قربانی کے دن تک وہ حلال نہیں ہوئے، پھر سر منڈوایا اور قربانی کی وجہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنا پہلا طواف کرکے انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا طواف پورا کر لیا ہے پھر آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
تشریح :
اس روایت میں حجۃ الحروریہ سے مراد امت کے طاغی حجاج کی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف فوج کشی ہے۔ یہ73ھ کا واقعہ ہے، حجاج خود خارجی نہیں تھا لیکن خارجیوں کی طرح اس نے بھی دعوائے اسلام کے باوجود حرم اور اسلام دونوں کی حرمت پر تاخت کی تھی۔ اس لیے راوی نے اس کے اس حملہ کو بھی خارجیوں کے حملہ کے ساتھ مشابہت دی اور اس کو بھی ایک طرح سے خارجیوں کا حملہ تصور کیا کہ اس نے امام حق یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف چڑھائی کی۔ حجۃ الحروریہ کہنے سے ہجو اور خوارج کے سے عمل کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ خارجیوں نے 64ھ میں حج کیا تھا، احتمال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان ہر دو سالوں میں حج کیا ہو۔ باب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے راستہ میں قربانی کا جانور خرید لیا اور عمرہ کے ساتھ حج کو بھی جمع فرما لیا اور فرمایا کہ اگر مجھ کو حج سے روک دیا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مشرکوں نے حدیبیہ کے سال حج سے روک دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ احرام کھول کر جانوروں کو قربان کرا دیا تھا، میں بھی ویسا ہی کرلوں گا، مگر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ نے بروقت جملہ ارکان حج کو ادا فرمایا۔
اس روایت میں حجۃ الحروریہ سے مراد امت کے طاغی حجاج کی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف فوج کشی ہے۔ یہ73ھ کا واقعہ ہے، حجاج خود خارجی نہیں تھا لیکن خارجیوں کی طرح اس نے بھی دعوائے اسلام کے باوجود حرم اور اسلام دونوں کی حرمت پر تاخت کی تھی۔ اس لیے راوی نے اس کے اس حملہ کو بھی خارجیوں کے حملہ کے ساتھ مشابہت دی اور اس کو بھی ایک طرح سے خارجیوں کا حملہ تصور کیا کہ اس نے امام حق یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف چڑھائی کی۔ حجۃ الحروریہ کہنے سے ہجو اور خوارج کے سے عمل کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ خارجیوں نے 64ھ میں حج کیا تھا، احتمال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان ہر دو سالوں میں حج کیا ہو۔ باب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے راستہ میں قربانی کا جانور خرید لیا اور عمرہ کے ساتھ حج کو بھی جمع فرما لیا اور فرمایا کہ اگر مجھ کو حج سے روک دیا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مشرکوں نے حدیبیہ کے سال حج سے روک دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ احرام کھول کر جانوروں کو قربان کرا دیا تھا، میں بھی ویسا ہی کرلوں گا، مگر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ نے بروقت جملہ ارکان حج کو ادا فرمایا۔