كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ: عَلاَمَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ»
کتاب: ایمان کے بیان میں
باب:اس بیان میں کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے
ہم سے اس حدیث کو ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، انھیں عبداللہ بن جبیر نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کو سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔
تشریح :
امام عالی مقام نے یہاں بھی مرجیہ کی تردید کے لیے اس روایت کونقل فرمایا ہے۔ انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی امداد واعانت کے صلہ میں دیاگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مدینہ آگئی تو اس وقت مدینہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیرپیش کرنے سے عاجز ہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگراہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجاانصار ومہاجرین کا ذکر خیرہوا ہے اور رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ سے ان کو یاد کیا گیا ہے۔
انصار کے مناقب وفضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہوگا۔ ان کے باہمی جنگ وجدال کے متعلق علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وانماکان حالہم فی ذلک حال المجتہدین فی الاحکام للمصیب اجران وللمخطی اجرواحد واللہ اعلم یعنی اس بارے میں ان کو ان مجتہدین کے حال پر قیاس کیاجائے گا جن کا اجتہاد درست ہو توان کو دوگناثواب ملتا ہے اور اگران سے خطا ہوجائے تو بھی وہ ایک ثواب سے محروم نہیں رہتے۔ المجتہد قدیخطی ویصیب ہمارے لیے یہی بہتر ہوگا کہ اس بارے میں زبان بند رکھتے ہوئے ان سب کو عزت سے یاد کریں۔
انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے بارے میں فرمایا لولاالہجرۃ لکنت امرا من الانصار ( بخاری شریف ) اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے شہرمدینہ میں ان کے ساتھ آرام فرما رہے ہیں۔ ( ا )
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصارہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ اس سے بھی انصار کی شان ومرتبت کا اظہار مقصود ہے۔
امام عالی مقام نے یہاں بھی مرجیہ کی تردید کے لیے اس روایت کونقل فرمایا ہے۔ انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی امداد واعانت کے صلہ میں دیاگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مدینہ آگئی تو اس وقت مدینہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیرپیش کرنے سے عاجز ہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگراہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجاانصار ومہاجرین کا ذکر خیرہوا ہے اور رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ سے ان کو یاد کیا گیا ہے۔
انصار کے مناقب وفضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہوگا۔ ان کے باہمی جنگ وجدال کے متعلق علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وانماکان حالہم فی ذلک حال المجتہدین فی الاحکام للمصیب اجران وللمخطی اجرواحد واللہ اعلم یعنی اس بارے میں ان کو ان مجتہدین کے حال پر قیاس کیاجائے گا جن کا اجتہاد درست ہو توان کو دوگناثواب ملتا ہے اور اگران سے خطا ہوجائے تو بھی وہ ایک ثواب سے محروم نہیں رہتے۔ المجتہد قدیخطی ویصیب ہمارے لیے یہی بہتر ہوگا کہ اس بارے میں زبان بند رکھتے ہوئے ان سب کو عزت سے یاد کریں۔
انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے بارے میں فرمایا لولاالہجرۃ لکنت امرا من الانصار ( بخاری شریف ) اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے شہرمدینہ میں ان کے ساتھ آرام فرما رہے ہیں۔ ( ا )
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصارہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ اس سے بھی انصار کی شان ومرتبت کا اظہار مقصود ہے۔