كِتَابُ الحَجِّ بَابُ فَتْلِ القَلاَئِدِ لِلْبُدْنِ وَالبَقَرِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ وَعَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهْدِي مِنْ الْمَدِينَةِ فَأَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِهِ ثُمَّ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُهُ الْمُحْرِمُ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب : گائے اونٹ وغیرہ قربانی کے جانوروں کے قلادے بٹنے کا بیان
ہم سے عبدا اللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمن نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے ہدی ساتھ لے کر چلتے تھے اور میں ان کے قلادے بٹا کرتی تھی پھر بھی آپ (احرام باندھنے سے پہلے ) ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے تھے جن سے ایک محرم پرہیز کرتا ہے۔
تشریح :
دونوں حدیثوں میں قربانی کا لفظ ہے وہ عام ہے اونٹ اور گائے دونوں کو شامل ہے۔ تو باب کا مطلب ثابت ہو گیا یعنی قران کے اونٹ اور گایوں کے لیے ہار بٹنا، یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھوں سے یہ ہار بٹا کرتی تھیں پس عورتوں کے لیے اس قسم کی صنعت حرفت کے کام کرنا کوئی امر معیوب نہیں ہے جیسا کہ نام نہاد شرفاءاسلام کے تصورات ہیں جو عورتوں کے لیے اس قسم کے کاموں کو اچھا نہیں جانتے یہ انتہائی کم فہمی کی دلیل ہے۔
دونوں حدیثوں میں قربانی کا لفظ ہے وہ عام ہے اونٹ اور گائے دونوں کو شامل ہے۔ تو باب کا مطلب ثابت ہو گیا یعنی قران کے اونٹ اور گایوں کے لیے ہار بٹنا، یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھوں سے یہ ہار بٹا کرتی تھیں پس عورتوں کے لیے اس قسم کی صنعت حرفت کے کام کرنا کوئی امر معیوب نہیں ہے جیسا کہ نام نہاد شرفاءاسلام کے تصورات ہیں جو عورتوں کے لیے اس قسم کے کاموں کو اچھا نہیں جانتے یہ انتہائی کم فہمی کی دلیل ہے۔