‌صحيح البخاري - حدیث 1695

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَنْ أَشْعَرَ وَقَلَّدَ بِذِي الحُلَيْفَةِ، ثُمَّ أَحْرَمَ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ قَالَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ مِنْ الْمَدِينَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1695

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب : جس نے ذو الحلیفہ میں اشعار کیا اور قلادہ پہنایا پھر احرام باندھا ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما اور مروان نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے تقریباً اپنے ایک ہزار ساتھیوں کے ساتھ (حج کے لیے نکلے ) جب ذی الحلیفہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کو ہار پہنایا اور اشعار کیا پھر عمرہ کا احرام باندھا۔
تشریح : اشعار کے معنی قربانی کے اونٹ کے دائیں کوہان میں نیزے سے ایک زخم کردینا، اب یہ جانور بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان زدہ ہوجاتا تھا اور کوئی بھی ڈاکو چور اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اب بھی یہ اشعار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مکروہ قرار دیا ہے جو سخت غلطی اور سنت نبوی کے بے ادبی ہے۔ امام ابن حزم نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا اور کسی سے اس کی کراہیت منقول نہیں، طحاوی نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اصل اشعار کو مکروہ نہیں کہا بلکہ اس میں مبالغہ کرنے کو مکروہ کہا ہے جس سے اونٹ کی ہلاکت کا ڈر ہو، اورحضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے جو مسلمانوں کے پیشوا ہیں، ہمارا یہی گمان ہے۔ اصل اشعار کو وہ کیسے مکروہ کہہ سکتے ہیں اس کا سنت ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ ( وحیدی ) قلادہ جوتیوں کا ہار جو قربانی کے جانوروں کے گلے میں ڈال کر گویا اسے بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان لگا دیا جاتا تھا، قلادہ اونٹ بکری گائے سب کے لیے ہے اور اشعار کے بارے میں حضرت علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فیہ مشروعیۃ الاشعار و ہو ان یکشط جلد البدنۃ حتی یسیل دم ثم یسلقہ فیکون ذلک علامۃ علی کونہا ہدیا و بذلک قال الجمہور من السلف و الخلف و ذکر الطحاوی فی اختلاف العلماءکراہیتہ عن ابی حنیفۃ و ذہب غیرہ الی استحبابہ للاتباع حتی صاحباہ ابویوسف و محمد فقالا ہو حسن قال و قال مالک یختص الاشعار بمن لہا سنام قال الطحاوی ثبت عن عائشۃ و ابن عباس التخییر فی الاشعار و ترکہ فدل علی انہ لیس بنسک لکنہ غیر مکروہ لثبوت فعلہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی اخرہ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث سے اشعار کی مشروعیت ثابت ہے وہ یہ کہ ہدی کے چمڑے کو ذرا سا زخمی کرکے اس سے خون بہاد دیا جائے بس وہ اس کے ہدی ہونے کی علامت ہے اور سلف اور خلف سے تمام جمہور نے اس کی مشروعیت کا اقرار کیا ہے اور امام طحاوی نے اس بارے میں علماءکا اختلاف ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور دوسرے لوگ اس کے مستحب ہونے کے قائل ہیںحتی کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہر دو شاگردان رشید حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ بھی اس کے بہتر ہونے کے قائل ہیں۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اشعار ان جانوروں کے ساتھ خاص ہے جن کے کوہان ہیں۔ طحاوی نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ اس کے یے اختیار ہے کہ یا تو اشعار کرے یا نہ کرے، یہ اسی امر کی دلیل ہے کہ اشعار کوئی حج کے مناسک سے نہیں ہے لیکن وہ غیر مکروہ ہے اس لیے کہ اس کا کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ مطلقاً اشعار کو مکروہ کہنے پر بہت سے متقدمین نے حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کے جوابات امام طحاوی نے دیئے ہیں، ان میں سے یہ بھی کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے مطلق اشعار کا انکار نہیں کیا بلکہ ایسے مبالغہ کے ساتھ اشعار کرنے کو مکروہ بتلایا ہے جس سے جانور ضعیف ہو کر ہلاکت کے قریب ہو جائے۔ جن لوگوں نے اشعار کو مثلہ سے تشبیہ دی ہے ان کا قول بھی غلط ہے۔ اشعار صرف ایسا ہی ہے جیسے کہ ختنہ اور حجامت اور نشانی کے لیے بعض جانوروں کے کان چیر دینا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب مثلہ کے ذیل میں نہیں آسکتے، پھر اشعار کیوں کر آسکتا ہے۔ اسی لیے ابوصائب کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں امام وکیع کے پاس تھے۔ ایک شخص نے کہا کہ امام نخعی سے اشعار کا مثلہ ہونا منقول ہے۔ امام وکیع نے خفگی کے لہجہ میں فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کیا اور تو کہتا ہے کہ ابراہیم نخعی نے ایسا کہا، حق تو یہ ہے کہ تجھ کو قید کر دیا جائے۔ ( فتح ) قرآن مجید کی آیت شریفہ یاایہا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ.... ( الحجرات : 1 ) کا مفہوم بھی یہی ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول سے کوئی امر صحیح طور پر ثابت ہو وہاں ہرگرز قیل و قال و قال و اقوال و آراء کو داخل نہ کیا جائے کہ یہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبی ہے۔ مگر صد افسوس ہے کہ امت کا جم غفیر اسی بیماری میں مبتلا ہے، اللہ پاک سب کو تقلید جامد سے شفائے کامل عطا فرمائے آمین۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ جب کسی ہدی کا اشعار کرتے تو اسے قبلہ رخ کر لیتے اور بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر اس کے کوہان کو زخمی کیا کرتے تھے۔ اشعار کے معنی قربانی کے اونٹ کے دائیں کوہان میں نیزے سے ایک زخم کردینا، اب یہ جانور بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان زدہ ہوجاتا تھا اور کوئی بھی ڈاکو چور اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اب بھی یہ اشعار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مکروہ قرار دیا ہے جو سخت غلطی اور سنت نبوی کے بے ادبی ہے۔ امام ابن حزم نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا اور کسی سے اس کی کراہیت منقول نہیں، طحاوی نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اصل اشعار کو مکروہ نہیں کہا بلکہ اس میں مبالغہ کرنے کو مکروہ کہا ہے جس سے اونٹ کی ہلاکت کا ڈر ہو، اورحضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے جو مسلمانوں کے پیشوا ہیں، ہمارا یہی گمان ہے۔ اصل اشعار کو وہ کیسے مکروہ کہہ سکتے ہیں اس کا سنت ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ ( وحیدی ) قلادہ جوتیوں کا ہار جو قربانی کے جانوروں کے گلے میں ڈال کر گویا اسے بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان لگا دیا جاتا تھا، قلادہ اونٹ بکری گائے سب کے لیے ہے اور اشعار کے بارے میں حضرت علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فیہ مشروعیۃ الاشعار و ہو ان یکشط جلد البدنۃ حتی یسیل دم ثم یسلقہ فیکون ذلک علامۃ علی کونہا ہدیا و بذلک قال الجمہور من السلف و الخلف و ذکر الطحاوی فی اختلاف العلماءکراہیتہ عن ابی حنیفۃ و ذہب غیرہ الی استحبابہ للاتباع حتی صاحباہ ابویوسف و محمد فقالا ہو حسن قال و قال مالک یختص الاشعار بمن لہا سنام قال الطحاوی ثبت عن عائشۃ و ابن عباس التخییر فی الاشعار و ترکہ فدل علی انہ لیس بنسک لکنہ غیر مکروہ لثبوت فعلہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی اخرہ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث سے اشعار کی مشروعیت ثابت ہے وہ یہ کہ ہدی کے چمڑے کو ذرا سا زخمی کرکے اس سے خون بہاد دیا جائے بس وہ اس کے ہدی ہونے کی علامت ہے اور سلف اور خلف سے تمام جمہور نے اس کی مشروعیت کا اقرار کیا ہے اور امام طحاوی نے اس بارے میں علماءکا اختلاف ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور دوسرے لوگ اس کے مستحب ہونے کے قائل ہیںحتی کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہر دو شاگردان رشید حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ بھی اس کے بہتر ہونے کے قائل ہیں۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اشعار ان جانوروں کے ساتھ خاص ہے جن کے کوہان ہیں۔ طحاوی نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ اس کے یے اختیار ہے کہ یا تو اشعار کرے یا نہ کرے، یہ اسی امر کی دلیل ہے کہ اشعار کوئی حج کے مناسک سے نہیں ہے لیکن وہ غیر مکروہ ہے اس لیے کہ اس کا کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ مطلقاً اشعار کو مکروہ کہنے پر بہت سے متقدمین نے حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کے جوابات امام طحاوی نے دیئے ہیں، ان میں سے یہ بھی کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے مطلق اشعار کا انکار نہیں کیا بلکہ ایسے مبالغہ کے ساتھ اشعار کرنے کو مکروہ بتلایا ہے جس سے جانور ضعیف ہو کر ہلاکت کے قریب ہو جائے۔ جن لوگوں نے اشعار کو مثلہ سے تشبیہ دی ہے ان کا قول بھی غلط ہے۔ اشعار صرف ایسا ہی ہے جیسے کہ ختنہ اور حجامت اور نشانی کے لیے بعض جانوروں کے کان چیر دینا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب مثلہ کے ذیل میں نہیں آسکتے، پھر اشعار کیوں کر آسکتا ہے۔ اسی لیے ابوصائب کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں امام وکیع کے پاس تھے۔ ایک شخص نے کہا کہ امام نخعی سے اشعار کا مثلہ ہونا منقول ہے۔ امام وکیع نے خفگی کے لہجہ میں فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کیا اور تو کہتا ہے کہ ابراہیم نخعی نے ایسا کہا، حق تو یہ ہے کہ تجھ کو قید کر دیا جائے۔ ( فتح ) قرآن مجید کی آیت شریفہ یاایہا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ.... ( الحجرات : 1 ) کا مفہوم بھی یہی ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول سے کوئی امر صحیح طور پر ثابت ہو وہاں ہرگرز قیل و قال و قال و اقوال و آراء کو داخل نہ کیا جائے کہ یہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبی ہے۔ مگر صد افسوس ہے کہ امت کا جم غفیر اسی بیماری میں مبتلا ہے، اللہ پاک سب کو تقلید جامد سے شفائے کامل عطا فرمائے آمین۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ جب کسی ہدی کا اشعار کرتے تو اسے قبلہ رخ کر لیتے اور بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر اس کے کوہان کو زخمی کیا کرتے تھے۔