كِتَابُ الحَجِّ بَابُ رُكُوبِ البُدْنِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً فَقَالَ ارْكَبْهَا فَقَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ فَقَالَ ارْكَبْهَا قَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ ارْكَبْهَا وَيْلَكَ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الثَّانِيَةِ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب : قربانی کے جانور پر سوار ہونا (جائز ہے )
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قربانی کاجانور لے جاتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے، آپ صلی اللہ عیلیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجانا۔ اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا افسوس ! سوار بھی ہو جاؤ ( ” ویلک “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا۔
تشریح :
زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ سائبہ وغیرہ جو جانور مذہبی نیاز و نذر کے طور پر چھوڑ دیتے ان پر سوار ہونا معیوب جانا کرتے تھے قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی جو کعبہ میں لے جائے جائیں ان کا ایسا ہی تصور تھا۔ اسلام نے اس غلط تصور کو ختم کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باصرار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستہ کی تھکن سے بچ سکو۔ قربانی کے جانور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے معطل کرکے چھوڑ دیا جائے۔ اسلام اسی لیے دین فطرت ہے کہ اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ نظر رکھا ہے اور ہر جگہ عین ضروریات انسانی کے تحت احکامات صادر کئے ہیں، خود عرب میں اطراف مکہ سے جو لاکھوں حاجی آج کل بھی حج کے لیے مکہ شریف آتے ہیں ان کے لیے یہی احکام ہیں باقی دور دراز ممالک اسلامیہ سے آنے والوں کے لیے قدرت نے ریل، موٹر، جہاز وجود پذیر کرد ئیے ہیں۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ آج کل سفر حج بے حد آسان ہو گیا پھر بھی کوئی دولت مند مسلمان حج کو نہ جائے تو اس کی بدبختی میں کیا شبہ ہے۔
زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ سائبہ وغیرہ جو جانور مذہبی نیاز و نذر کے طور پر چھوڑ دیتے ان پر سوار ہونا معیوب جانا کرتے تھے قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی جو کعبہ میں لے جائے جائیں ان کا ایسا ہی تصور تھا۔ اسلام نے اس غلط تصور کو ختم کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باصرار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستہ کی تھکن سے بچ سکو۔ قربانی کے جانور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے معطل کرکے چھوڑ دیا جائے۔ اسلام اسی لیے دین فطرت ہے کہ اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ نظر رکھا ہے اور ہر جگہ عین ضروریات انسانی کے تحت احکامات صادر کئے ہیں، خود عرب میں اطراف مکہ سے جو لاکھوں حاجی آج کل بھی حج کے لیے مکہ شریف آتے ہیں ان کے لیے یہی احکام ہیں باقی دور دراز ممالک اسلامیہ سے آنے والوں کے لیے قدرت نے ریل، موٹر، جہاز وجود پذیر کرد ئیے ہیں۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ آج کل سفر حج بے حد آسان ہو گیا پھر بھی کوئی دولت مند مسلمان حج کو نہ جائے تو اس کی بدبختی میں کیا شبہ ہے۔