كِتَابُ الحَجِّ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ الْمُتْعَةِ فَأَمَرَنِي بِهَا وَسَأَلْتُهُ عَنْ الْهَدْيِ فَقَالَ فِيهَا جَزُورٌ أَوْ بَقَرَةٌ أَوْ شَاةٌ أَوْ شِرْكٌ فِي دَمٍ قَالَ وَكَأَنَّ نَاسًا كَرِهُوهَا فَنِمْتُ فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ إِنْسَانًا يُنَادِي حَجٌّ مَبْرُورٌ وَمُتْعَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَقَالَ آدَمُ وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ وَغُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ وَحَجٌّ مَبْرُورٌ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہیں نضر بن شمیل نے خبر دی، انہیں شعبہ نے خبر دی، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے ) یا کسی قربانی (اونٹ، یا گائے بھینس کی ) میں شریک ہو جائے، ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔ پھر میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص پکار رہا ہے یہ حج مبرور ہے اور یہ مقبول تمتع ہے۔ اب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ اکبر ! یہ تو ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ کہا کہ وہب بن جریر اور غندر نے شعبہ کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے عمرۃ متقبلۃ و حج مبرور (اس میں عمرہ کا ذکر پہلے ہے یعنی یہ عمرہ مقبول اور حج مبرور ہے۔ )
تشریح :
حضرت عمر اور عثمان غنی رضی اللہ عنہما سے تمتع کی کراہیت منقول ہے لیکن ان کا قول احادیث صحیحہ اور خود نص قرآنی کے برخلاف ہے، اس لیے ترک کیا گیا اور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جب حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی رائے جو خلفائے راشدین میں سے ہیں حدیث کے خلاف مقبول نہ ہو تو اور مجتہد یا مولوی کس شمار میں ہیں۔ ان کا فتوی حدیث کے برخلاف لچر اور پوچ ہے۔ ( وحیدی ) اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ صحیح مرفوع احادیث کے مقابلہ پر قول امام کو ترجیح دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے یہی کافی ہے پس اللہ کے ہاں جس دن حساب کے لیے کھڑے ہوں گے ان کا کیا جواب ہو سکے گا۔ صد افسوس کہ یہود و نصاریٰ میں تقلید شخصی کی بیماری تھی جس نے مسلمانوں کو بھی پکڑ لیا اور وہ بھی اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ ( التوبۃ : 31 ) کے مصداق بن گئے یعنی ان لوگوں نے اپنے مولویوں درویشوں کو خدا کے سوا اپنا رب ٹھہرا لیا، یعنی خدا کی طرح ان کی فرمانبرداری کو اپنے لیے لازم قرار دے لیا۔ اسی کا نام تقلید جامد ہے جو سب بیماریوں کی جڑ ہے۔
حضرت عمر اور عثمان غنی رضی اللہ عنہما سے تمتع کی کراہیت منقول ہے لیکن ان کا قول احادیث صحیحہ اور خود نص قرآنی کے برخلاف ہے، اس لیے ترک کیا گیا اور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جب حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی رائے جو خلفائے راشدین میں سے ہیں حدیث کے خلاف مقبول نہ ہو تو اور مجتہد یا مولوی کس شمار میں ہیں۔ ان کا فتوی حدیث کے برخلاف لچر اور پوچ ہے۔ ( وحیدی ) اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ صحیح مرفوع احادیث کے مقابلہ پر قول امام کو ترجیح دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے یہی کافی ہے پس اللہ کے ہاں جس دن حساب کے لیے کھڑے ہوں گے ان کا کیا جواب ہو سکے گا۔ صد افسوس کہ یہود و نصاریٰ میں تقلید شخصی کی بیماری تھی جس نے مسلمانوں کو بھی پکڑ لیا اور وہ بھی اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ ( التوبۃ : 31 ) کے مصداق بن گئے یعنی ان لوگوں نے اپنے مولویوں درویشوں کو خدا کے سوا اپنا رب ٹھہرا لیا، یعنی خدا کی طرح ان کی فرمانبرداری کو اپنے لیے لازم قرار دے لیا۔ اسی کا نام تقلید جامد ہے جو سب بیماریوں کی جڑ ہے۔