‌صحيح البخاري - حدیث 1679

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَنْ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ بِلَيْلٍ، فَيَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَيَدْعُونَ، وَيُقَدِّمُ إِذَا غَابَ القَمَرُ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّهَا نَزَلَتْ لَيْلَةَ جَمْعٍ عِنْدَ الْمُزْدَلِفَةِ فَقَامَتْ تُصَلِّي فَصَلَّتْ سَاعَةً ثُمَّ قَالَتْ يَا بُنَيَّ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ قُلْتُ لَا فَصَلَّتْ سَاعَةً ثُمَّ قَالَتْ يَا بُنَيَّ هَلْ غَابَ الْقَمَرُ قُلْت نَعَمْ قَالَتْ فَارْتَحِلُوا فَارْتَحَلْنَا وَمَضَيْنَا حَتَّى رَمَتْ الْجَمْرَةَ ثُمَّ رَجَعَتْ فَصَلَّتْ الصُّبْحَ فِي مَنْزِلِهَا فَقُلْتُ لَهَا يَا هَنْتَاهُ مَا أُرَانَا إِلَّا قَدْ غَلَّسْنَا قَالَتْ يَا بُنَيَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِلظُّعُنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1679

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب : عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کردینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔ ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید بن قطان نے، ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ ان سے اسماءکے غلام عبداللہ نے بیان کیا کہ ان سے اسماءبنت ابوبکر رضی اللہ عنہما نے کہ وہ رات ہی میں مزدلفہ پہنچ گئیں اور کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں، کچھ دیر تک نماز پڑھنے کے بعد پوچھا بیٹے ! کیا چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس لیے وہ دوبارہ نماز پڑھنے لگیں کچھ دیر بعد پھر پوچھا کیا چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا ہاں، انہوں نے کہا کہ اب آگے چلو (منی کو ) چنانچہ ہم ان کے ساتھ آگے چلے، وہ (منی میں ) رمی جمرہ کرنے کے بعد پھر واپس آگئیں اور صبح کی نماز اپنے ڈیرے پر پڑھی میں نے کہا جناب ! یہ کیا بات ہوئی کہ ہم نے اندھیرے ہی میں نماز پرھ لی۔ انہوں نے کہا بیٹے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے۔
تشریح : معلوم ہوا کہ سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں مار لینا درست ہے، لیکن حنفیہ نے اس کو جائز نہیں رکھا اور امام احمد اور اسحاق اور جمہور علماءکا یہ قول ہے کہ صبح صادق سے پہلے درست نہیں اگر کوئی اس سے پہلے مارے تو صبح ہونے کے بعد دوبارہ مارنا چاہئے اور شافعی کے نزدیک صبح سے پہلے کنکریاں مار لینا درست ہے۔ ( وحیدی ) معلوم ہوا کہ سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں مار لینا درست ہے، لیکن حنفیہ نے اس کو جائز نہیں رکھا اور امام احمد اور اسحاق اور جمہور علماءکا یہ قول ہے کہ صبح صادق سے پہلے درست نہیں اگر کوئی اس سے پہلے مارے تو صبح ہونے کے بعد دوبارہ مارنا چاہئے اور شافعی کے نزدیک صبح سے پہلے کنکریاں مار لینا درست ہے۔ ( وحیدی )