كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَنْ أَذَّنَ وَأَقَامَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ حَجَّ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَتَيْنَا الْمُزْدَلِفَةَ حِينَ الْأَذَانِ بِالْعَتَمَةِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ فَأَمَرَ رَجُلًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ وَصَلَّى بَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ دَعَا بِعَشَائِهِ فَتَعَشَّى ثُمَّ أَمَرَ أُرَى فَأَذَّنَ وَأَقَامَ قَالَ عَمْرٌو لَا أَعْلَمُ الشَّكَّ إِلَّا مِنْ زُهَيْرٍ ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ فَلَمَّا طَلَعَ الْفَجْرُ قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يُصَلِّي هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا هَذِهِ الصَّلَاةَ فِي هَذَا الْمَكَانِ مِنْ هَذَا الْيَوْمِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ هُمَا صَلَاتَانِ تُحَوَّلَانِ عَنْ وَقْتِهِمَا صَلَاةُ الْمَغْرِبِ بَعْدَ مَا يَأْتِي النَّاسُ الْمُزْدَلِفَةَ وَالْفَجْرُ حِينَ يَبْزُغُ الْفَجْرُ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب : جس نے کہا کہ ہر نماز کے لیے اذان اور تکبیر کہنا چاہئے اس کی دلیل
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسحق عمرو بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمن بن یزید سے سنا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حج کیا، آپ کے ساتھ تقریباً عشاءکی اذان کے وقت ہم مزدلفہ میں بھی آئے، آپ نے ایک شخص کو حکم دیا اس نے اذان اورتکبیر کہی اور آپ نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت (سنت ) اور پڑھی اور شام کا کھانا منگوا کر کھایا۔ میرا خیال ہے (راوی حدیث زہیر کا ) کہ پھر آپ نے حکم دیا اور اس شخص نے اذان دی اور تکبیر کہی عمرو (راوی حدیث ) نے کہا میں یہی سمجھتا ہوں کہ شک زہیر (عمرو کے شیخ ) کو تھا، اس کے بعد عشاءکی نماز دو رکعت پڑھی۔ جب صبح صادق ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز (فجر ) کو اس مقام اور اس دن کے سوا اور کبھی اس وقت (طلوع فجر ہوتے ہی ) نہیں پڑھتے تھے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ صرف دو نمازیں (آج کے دن ) اپنے معمولی وقت سے ہٹا دی جاتی ہیں۔ جب لوگ مزدلفہ آتے ہیں تو مغرب کی نماز (عشاءکے ساتھ ملا کر ) پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز طلوع فجر کے ساتھ ہی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔
تشریح :
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ نمازوں کا جمع کرنے والا دونوں نمازوں کے بیچ میں کھانا کھاسکتا ہے یا کچھ کام کرسکتا ہے۔ اس حدیث میں جمع کے ساتھ نفل پڑھنا بھی مذکور ہے۔ فجر کے بارے میں یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اسی دن تاریکی میں پڑھی اور شاید مراد ان کی یہ ہو کہ اس دن بہت تاریکی میں پڑھی یعنی صبح صادق ہوتے ہی، ورنہ دوسرے بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے راویت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت بہت یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عاملوں کو پروانہ لکھا کہ صبح کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوں یعنی اندھیری ہو۔ اور یہ بھی صرف ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوا اس مقام کے اور کہیں جمع نہیں کیا اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمع کرنا نقل کیا ہے۔ ( وحیدی )
آپ ( ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) نے نماز مغرب اور عشاءکے درمیان نفل بھی پڑھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پڑھنا ثابت ہے، لہٰذا ترجیح فعل نبوی ہی کو ہوگی۔ ہاں کوئی شحص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرح پڑھ بھی لے تو غالباً وہ گنہگار نہ ہوگا اگرچہ یہ سنت نبوی کے مطابق نہ ہو گا۔ انما الاعمال بالنیات۔
دین میں اصل الاصول یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا بہرحال مقدم رکھی جائے۔ جہاں جس کام کے لیے حکم فرمایا جائے اس کام کو کیا جائے اور جہاں اس کام سے روک دیا جائے وہاں رک جائے، اطاعت کا یہی مفہوم ہے، اسی میں خیر اور بھلائی ہے۔ اللہ سب کو دین پر قائم رکھے۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ نمازوں کا جمع کرنے والا دونوں نمازوں کے بیچ میں کھانا کھاسکتا ہے یا کچھ کام کرسکتا ہے۔ اس حدیث میں جمع کے ساتھ نفل پڑھنا بھی مذکور ہے۔ فجر کے بارے میں یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اسی دن تاریکی میں پڑھی اور شاید مراد ان کی یہ ہو کہ اس دن بہت تاریکی میں پڑھی یعنی صبح صادق ہوتے ہی، ورنہ دوسرے بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے راویت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت بہت یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عاملوں کو پروانہ لکھا کہ صبح کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوں یعنی اندھیری ہو۔ اور یہ بھی صرف ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوا اس مقام کے اور کہیں جمع نہیں کیا اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمع کرنا نقل کیا ہے۔ ( وحیدی )
آپ ( ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) نے نماز مغرب اور عشاءکے درمیان نفل بھی پڑھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پڑھنا ثابت ہے، لہٰذا ترجیح فعل نبوی ہی کو ہوگی۔ ہاں کوئی شحص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرح پڑھ بھی لے تو غالباً وہ گنہگار نہ ہوگا اگرچہ یہ سنت نبوی کے مطابق نہ ہو گا۔ انما الاعمال بالنیات۔
دین میں اصل الاصول یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا بہرحال مقدم رکھی جائے۔ جہاں جس کام کے لیے حکم فرمایا جائے اس کام کو کیا جائے اور جہاں اس کام سے روک دیا جائے وہاں رک جائے، اطاعت کا یہی مفہوم ہے، اسی میں خیر اور بھلائی ہے۔ اللہ سب کو دین پر قائم رکھے۔