كِتَابُ الحَجِّ بَابُ التَّهْجِيرِ بِالرَّوَاحِ يَوْمَ عَرَفَةَ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ قَالَ كَتَبَ عَبْدُ الْمَلِكِ إِلَى الْحَجَّاجِ أَنْ لَا يُخَالِفَ ابْنَ عُمَرَ فِي الْحَجِّ فَجَاءَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَ عَرَفَةَ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ فَصَاحَ عِنْدَ سُرَادِقِ الْحَجَّاجِ فَخَرَجَ وَعَلَيْهِ مِلْحَفَةٌ مُعَصْفَرَةٌ فَقَالَ مَا لَكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ الرَّوَاحَ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ قَالَ هَذِهِ السَّاعَةَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَنْظِرْنِي حَتَّى أُفِيضَ عَلَى رَأْسِي ثُمَّ أَخْرُجُ فَنَزَلَ حَتَّى خَرَجَ الْحَجَّاجُ فَسَارَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي فَقُلْتُ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَاقْصُرْ الْخُطْبَةَ وَعَجِّلْ الْوُقُوفَ فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ صَدَقَ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: عرفہ کے دن عین گرمی میں ٹھک دوپہر کو روانہ ہونا
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور ان سے سالم نے بیان کیا کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ حج کے احکام میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف نہ کرے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عرفہ کے دن سورج ڈھلتے ہی تشریف لائے میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ آپ نے حجاج کے خیمہ کے پاس بلند آواز سے پکارا۔ حجاج باہر نکلا اس کے بدن میں ایک کسم میں رنگی ہوئی چادر تھی۔ اس نے پوچھا ابوعبدالرحمن ! کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا اگر سنت کے مطابق عمل چاہتے ہو تو جلدی اٹھ کر چل کھڑے ہو جاؤ۔ اس نے کہا کیا اسی وقت؟ عبداللہ نے فرمایا کہ ہاں اسی وقت۔ حجاج نے کہا کہ پھر تھوڑی سی مہلت دیجئے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں یعنی غسل کرلوں پھر نکلتا ہوں۔ اس کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (سواری سے ) اتر گئے اور جب حجاج باہر آیا تو میرے اور والد (ابن عمر ) کے درمیان چلنے لگا تو میں نے کہا کہ اگر سنت پر عمل کا ارادہ ہے تو خطبہ میںاختصار اور وقوف (عرفات ) میں جلدی کرنا۔ اس بات پر وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف دیکھنے لگا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ سچ کہتا ہے۔
تشریح :
تشریح : حجاج عبدالملک کی طرف سے حجاز کا حاکم تھا، جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر فتح پائی تو عبدالملک نے اسی کو حاکم بنادیا۔ ابوعبدالرحمن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے اور سالم ان کے بیٹے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وقوف عرفہ عین گرمی کے وقت دوپہر کے بعد ہی شروع کردینا چاہئے۔ اس وقت وقوف کے لیے غسل کرنا مستحب ہے اور وقوف میں کسم میں رنگا ہوا کپڑا پہننا منع ہے۔ حجاج نے یہ بھی غلطی کی، جہاں اور بہت سی غلطیاں اس سے ہوئی ہیں، خاص طور پر کتنے ہی مسلمانوں کا خون ناحق اس کی گردن پر ہے۔ اسی سلسلے میں ایک کڑی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قتل ناحق بھی ہے جس کے بعد حجاج بیما رہو گیا تھا۔ اور اسے اکثر خواب میں نظر آیا کرتا تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا خون ناحق اس کی گردن پر سوار ہے۔
تشریح : حجاج عبدالملک کی طرف سے حجاز کا حاکم تھا، جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر فتح پائی تو عبدالملک نے اسی کو حاکم بنادیا۔ ابوعبدالرحمن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے اور سالم ان کے بیٹے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وقوف عرفہ عین گرمی کے وقت دوپہر کے بعد ہی شروع کردینا چاہئے۔ اس وقت وقوف کے لیے غسل کرنا مستحب ہے اور وقوف میں کسم میں رنگا ہوا کپڑا پہننا منع ہے۔ حجاج نے یہ بھی غلطی کی، جہاں اور بہت سی غلطیاں اس سے ہوئی ہیں، خاص طور پر کتنے ہی مسلمانوں کا خون ناحق اس کی گردن پر ہے۔ اسی سلسلے میں ایک کڑی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قتل ناحق بھی ہے جس کے بعد حجاج بیما رہو گیا تھا۔ اور اسے اکثر خواب میں نظر آیا کرتا تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا خون ناحق اس کی گردن پر سوار ہے۔