كِتَابُ الحَجِّ بَابُ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنَا سَالِمٌ قَالَ سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى أُمِّ الْفَضْلِ عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ شَكَّ النَّاسُ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا بیان
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا اور ان سے سالم ابوالنصر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ام فضل کے غلام عمیر سے سنا، انہوں نے ام فضل ر ضی اللہ عنہا سے کہ عرفہ کے دن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک ہوا، اس لیے میں نے آپ کے پینے کو کچھ بھیجا جسے آپ نے پی لیا۔
تشریح :
عرفہ کا روزہ بہت ہی بڑا وسیلہؤ ثواب ہے دوسری احادیث میں اس کے فضائل مذکور ہیں۔ حدیث مذکور ام الفضل کے ذیل شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری مدظلہ فرماتے ہیں قال الحافظ قولہ فی صیام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذا یشعر بان صو م یوم عرفۃ کان معروفا عندہم معتادا لہم فی الحضر و کان من جزم بہ بانہ صائم استندالی ما الفہ من العبادۃ و من جزم بانہ غیر صائم قامت عندہ قرینۃ کونہ مسافراً و قد عرف نہیہ عن صوم الفرض فی السفرفضلا من النفل ( مرعاۃ ) لوگوںمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ کے متعلق اختلاف ہوا۔ اس سے ظاہر ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ ان دنوں ان کے ہاں معروف تھا اور حضر میں اسے بطور عادت سب رکھا کرتے تھے، اس لیے جن لوگوں کو آپ کے روزہ دار ہونے کا یقین ہوا وہ اس بنا پر کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت گزاری کی الفت سے واقف تھے اور جن کو نہ رکھنے کا خیال ہوا وہ اس بنا پر کہ آپ مسافر تھے اور یہ بھی مشہور تھا کہ آپ نے سفر میں ایک دفعہ فرض روزہ ہی سے منع فرما دیا تھا تو نفل کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اس روایت میں دودھ بھیجنے والی حضرت ام الفضل بتلائی گئی ہیں مگر مسلم شریف کی روایت میں حضرت میمونہ کا ذکر ہے کہ دودھ انہوں نے بھیجا تھا۔ اس پر حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں فیحتمل التعدد ویحتمل انہما ارسلتا معا فنسب ذلک الی کل منہما لانہما کانتا اختین و تکون میمونۃ ارسلت بسوال ام الفضل لہا فی ذلک لکشف الحال فی ذلک و یحتمل العکس ( مرعاۃ ) یعنی احتمال ہے کہ دو نے الگ الگ دودھ بھیجا ہو اور یہ ہر ایک کی طرف منسوب ہو گیا اس لیے بھی کہ وہ دونوں بہن تھیں اور میمونہ نے اس وقت بھیجا ہو جب کہ ام الفضل نے ان سے تحقیق حال کا سوال کیا اور اس کا عکس بھی محتمل ہے۔ اور دودھ اس لیے بھیجا گیا کہ یہ غذا اور پانی ہر دو کا کام دیتا ہے، اسی لیے کھانا کھانے پر آپ یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اللہم بارک لی فیہ و اطعمنی خیرا منہ ( یا اللہ ! مجھ کو اس میں برکت بخش اور اس سے بھی بہتر کھلائیو ) اور دودھ پی کر آپ یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اللہم بارک لی فیہ و زدنی منہ ( یا اللہ ! مجھے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے زیادہ نصیب فرمائیو۔ ) ابوقتادہ کی حدیث جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس میں مذکور ہے کہ عرفہ کا روزہ اگلے اور پچھلے سالوں کے گناہ معاف کرا دیتا ہے۔ ہر دو احادیث میں یہ تطبیق دی گئی ہے کہ یہ روزہ عرفات میں حاجیوں کے لیے رکھنا منع ہے تاکہ ان میں وقوف عرفہ کے لیے ضعف پیدا نہ ہو جو حج کا اصل مقصد ہے اور غیر حاجیوں کے لیے یہ روزہ مستحب اور باعث ثواب مذکور ہے، وقال ابن قدامۃ ( ص 176 ) اکثر اہل العلم یستحبون الفطر یوم عرفۃ بعرفۃ و کانت عائشۃ و ابن الزبیر یصومانہ و قال قتادۃ لا باس بہ اذا لم یضعف عن الدعاءالخ ( مرعاۃ ) یعنی اکثر اہل علم نے اسی کو مستحب قرار دیا ہے کہ عرفات میں یہ روزہ نہ رکھا جائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما یہ روزہ وہاں بھی رکھا کرتے تھے، اور قتادہ نے کہا کہ اگر دعا میں کمزوری کا خطرہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنے میں حاجی کے لیے بھی کوئی حرج نہیں ہے، مگر افضل نہ رکھنا ہی ہے۔ حدیث ام فضل کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حج اور صیام اور اشربہ میں بھی ذکر فرما کر اس سے متعدد مسائل کو ثابت فرمایا ہے۔
عرفہ کا روزہ بہت ہی بڑا وسیلہؤ ثواب ہے دوسری احادیث میں اس کے فضائل مذکور ہیں۔ حدیث مذکور ام الفضل کے ذیل شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری مدظلہ فرماتے ہیں قال الحافظ قولہ فی صیام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذا یشعر بان صو م یوم عرفۃ کان معروفا عندہم معتادا لہم فی الحضر و کان من جزم بہ بانہ صائم استندالی ما الفہ من العبادۃ و من جزم بانہ غیر صائم قامت عندہ قرینۃ کونہ مسافراً و قد عرف نہیہ عن صوم الفرض فی السفرفضلا من النفل ( مرعاۃ ) لوگوںمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ کے متعلق اختلاف ہوا۔ اس سے ظاہر ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ ان دنوں ان کے ہاں معروف تھا اور حضر میں اسے بطور عادت سب رکھا کرتے تھے، اس لیے جن لوگوں کو آپ کے روزہ دار ہونے کا یقین ہوا وہ اس بنا پر کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت گزاری کی الفت سے واقف تھے اور جن کو نہ رکھنے کا خیال ہوا وہ اس بنا پر کہ آپ مسافر تھے اور یہ بھی مشہور تھا کہ آپ نے سفر میں ایک دفعہ فرض روزہ ہی سے منع فرما دیا تھا تو نفل کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اس روایت میں دودھ بھیجنے والی حضرت ام الفضل بتلائی گئی ہیں مگر مسلم شریف کی روایت میں حضرت میمونہ کا ذکر ہے کہ دودھ انہوں نے بھیجا تھا۔ اس پر حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں فیحتمل التعدد ویحتمل انہما ارسلتا معا فنسب ذلک الی کل منہما لانہما کانتا اختین و تکون میمونۃ ارسلت بسوال ام الفضل لہا فی ذلک لکشف الحال فی ذلک و یحتمل العکس ( مرعاۃ ) یعنی احتمال ہے کہ دو نے الگ الگ دودھ بھیجا ہو اور یہ ہر ایک کی طرف منسوب ہو گیا اس لیے بھی کہ وہ دونوں بہن تھیں اور میمونہ نے اس وقت بھیجا ہو جب کہ ام الفضل نے ان سے تحقیق حال کا سوال کیا اور اس کا عکس بھی محتمل ہے۔ اور دودھ اس لیے بھیجا گیا کہ یہ غذا اور پانی ہر دو کا کام دیتا ہے، اسی لیے کھانا کھانے پر آپ یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اللہم بارک لی فیہ و اطعمنی خیرا منہ ( یا اللہ ! مجھ کو اس میں برکت بخش اور اس سے بھی بہتر کھلائیو ) اور دودھ پی کر آپ یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اللہم بارک لی فیہ و زدنی منہ ( یا اللہ ! مجھے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے زیادہ نصیب فرمائیو۔ ) ابوقتادہ کی حدیث جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس میں مذکور ہے کہ عرفہ کا روزہ اگلے اور پچھلے سالوں کے گناہ معاف کرا دیتا ہے۔ ہر دو احادیث میں یہ تطبیق دی گئی ہے کہ یہ روزہ عرفات میں حاجیوں کے لیے رکھنا منع ہے تاکہ ان میں وقوف عرفہ کے لیے ضعف پیدا نہ ہو جو حج کا اصل مقصد ہے اور غیر حاجیوں کے لیے یہ روزہ مستحب اور باعث ثواب مذکور ہے، وقال ابن قدامۃ ( ص 176 ) اکثر اہل العلم یستحبون الفطر یوم عرفۃ بعرفۃ و کانت عائشۃ و ابن الزبیر یصومانہ و قال قتادۃ لا باس بہ اذا لم یضعف عن الدعاءالخ ( مرعاۃ ) یعنی اکثر اہل علم نے اسی کو مستحب قرار دیا ہے کہ عرفات میں یہ روزہ نہ رکھا جائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما یہ روزہ وہاں بھی رکھا کرتے تھے، اور قتادہ نے کہا کہ اگر دعا میں کمزوری کا خطرہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنے میں حاجی کے لیے بھی کوئی حرج نہیں ہے، مگر افضل نہ رکھنا ہی ہے۔ حدیث ام فضل کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حج اور صیام اور اشربہ میں بھی ذکر فرما کر اس سے متعدد مسائل کو ثابت فرمایا ہے۔