كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًى صحيح حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ تَفَرَّقَتْ بِكُمْ الطُّرُقُ فَيَا لَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: منی میں نماز پڑھنے کا بیان
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمن بن یزید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی اور ابوبکر ر ضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو ہی رکعت پڑھی اور عمر ر ضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو ہی رکعت، لیکن پھر ان کے بعد تم میں اختلاف ہوگیا تو کاش ان چار رکعتوں کے بدلے مجھ کو دو رکعات ہی نصیب ہوتیں جو (اللہ کے ہاں ) قبول ہو جائیں۔
تشریح :
حضرت عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ عنہ نے بطور اظہار ناراضگی فرمایا کہ کاش میری دو رکعات ہی اللہ کے ہاں قبول ہو جائیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے فروعی اور اجتہادی اختلاف کی بنا پر کسی کو بھی مورد طعن نہیں بنایا جاسکتا۔ حضرت عثمان ر ضی اللہ عنہ کے سامنے کچھ مصالح ہوں گے جن کی بنا پر انہوں نے ایسا کیا ورنہ شروع خلافت میں وہ بھی قصر ہی کیا کرتے تھے۔ قصر کرنا بہرحال اولی ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آپ کی سنت ہر حال میں مقدم ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ عنہ کے ارشاد کے فیالیت حظی من اربع رکعتان متقبلتان کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں والذی یظہر انہ قال ذلک علی سبیل التفویض الی اللہ لعدم اطلاعہ علی الغیب و ہل یقبل اللہ صلوٰتہ ام لا فتمنی ان یقبل منہ من الاربع التی یصلیہا رکعتان و ولو یقبل الزائد و ہو یشعر بان المسافر عندہ مخیر یبن القصر والاتمام و الرکعتان لا بد منہما و مع ذلک فکان یخاف ان لا یقبل منہ شئی فحاصلہ انہ قال انما اتم متابعۃ لعثمان و لیت اللہ قبل منی رکعتین من الاربع یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ عنہ نے جو فرمایا یہ آپ نے اپنا عمل اللہ کو سونپا اس لیے کہ آپ کو غیب پر اطلاع نہ تھی کہ اللہ پاک آپ کی نماز قبول کرتا ہے یا نہیں، اس لیے تمنا فرمائی کہ کاش اللہ میری چار کعات میں سے دو رکعات کو قبول فرمالے اگرچہ وہ زائد رکعات کوقبول نہ فرمائے اور یہ اس لیے بھی کہ مسافر کو نماز پوری کرنے اورقصر کرنے کا آپ کے نزدیک اختیار تھا۔ اور دورکعات کے بغیر تو گزارہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ ڈرتے تھے کہ شاید کچھ بھی قبول نہ ہو، پس حاصل بحث یہ ہے کہ آپ نے حضرت عثمان ر ضی اللہ عنہ کی متابعت میں نماز کو پورا فرمایا اور یہ کہا کہ کاش اللہ پاک ان چار رکعات میں سے میری دو رکعات ہی کو قبول فرما لے۔ اللہ والوں کی یہی شان ہے کہ وہ کچھ بھی نیکی کریں، کتنے ہی تقوی شعار ہوں مگر پھر بھی ان کو یہی خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ان کی نیکیاں دربار الٰہی میں قبول ہوتی ہیں یا رد ہو جاتی ہیں۔ ایسے اللہ والے آج کل عنقاءہیں جب کہ اکثریت ریاکاروں بظاہر تقویٰ شعاروں و بباطن دنیا داروں کی رہ گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ عنہ نے بطور اظہار ناراضگی فرمایا کہ کاش میری دو رکعات ہی اللہ کے ہاں قبول ہو جائیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے فروعی اور اجتہادی اختلاف کی بنا پر کسی کو بھی مورد طعن نہیں بنایا جاسکتا۔ حضرت عثمان ر ضی اللہ عنہ کے سامنے کچھ مصالح ہوں گے جن کی بنا پر انہوں نے ایسا کیا ورنہ شروع خلافت میں وہ بھی قصر ہی کیا کرتے تھے۔ قصر کرنا بہرحال اولی ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آپ کی سنت ہر حال میں مقدم ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ عنہ کے ارشاد کے فیالیت حظی من اربع رکعتان متقبلتان کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں والذی یظہر انہ قال ذلک علی سبیل التفویض الی اللہ لعدم اطلاعہ علی الغیب و ہل یقبل اللہ صلوٰتہ ام لا فتمنی ان یقبل منہ من الاربع التی یصلیہا رکعتان و ولو یقبل الزائد و ہو یشعر بان المسافر عندہ مخیر یبن القصر والاتمام و الرکعتان لا بد منہما و مع ذلک فکان یخاف ان لا یقبل منہ شئی فحاصلہ انہ قال انما اتم متابعۃ لعثمان و لیت اللہ قبل منی رکعتین من الاربع یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ر ضی اللہ عنہ نے جو فرمایا یہ آپ نے اپنا عمل اللہ کو سونپا اس لیے کہ آپ کو غیب پر اطلاع نہ تھی کہ اللہ پاک آپ کی نماز قبول کرتا ہے یا نہیں، اس لیے تمنا فرمائی کہ کاش اللہ میری چار کعات میں سے دو رکعات کو قبول فرمالے اگرچہ وہ زائد رکعات کوقبول نہ فرمائے اور یہ اس لیے بھی کہ مسافر کو نماز پوری کرنے اورقصر کرنے کا آپ کے نزدیک اختیار تھا۔ اور دورکعات کے بغیر تو گزارہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ ڈرتے تھے کہ شاید کچھ بھی قبول نہ ہو، پس حاصل بحث یہ ہے کہ آپ نے حضرت عثمان ر ضی اللہ عنہ کی متابعت میں نماز کو پورا فرمایا اور یہ کہا کہ کاش اللہ پاک ان چار رکعات میں سے میری دو رکعات ہی کو قبول فرما لے۔ اللہ والوں کی یہی شان ہے کہ وہ کچھ بھی نیکی کریں، کتنے ہی تقوی شعار ہوں مگر پھر بھی ان کو یہی خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ان کی نیکیاں دربار الٰہی میں قبول ہوتی ہیں یا رد ہو جاتی ہیں۔ ایسے اللہ والے آج کل عنقاءہیں جب کہ اکثریت ریاکاروں بظاہر تقویٰ شعاروں و بباطن دنیا داروں کی رہ گئی ہے۔