‌صحيح البخاري - حدیث 1652

كِتَابُ الحَجِّ بَابٌ: تَقْضِي الحَائِضُ المَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَإِذَا سَعَى عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ بَيْنَ الصَّفَا صحيح حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ كُنَّا نَمْنَعُ عَوَاتِقَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ فَقَدِمَتْ امْرَأَةٌ فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ فَحَدَّثَتْ أَنَّ أُخْتَهَا كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً وَكَانَتْ أُخْتِي مَعَهُ فِي سِتِّ غَزَوَاتٍ قَالَتْ كُنَّا نُدَاوِي الْكَلْمَى وَنَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى فَسَأَلَتْ أُخْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ هَلْ عَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لَا تَخْرُجَ قَالَ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا وَلْتَشْهَدْ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَأَلْنَهَا أَوْ قَالَتْ سَأَلْنَاهَا فَقَالَتْ وَكَانَتْ لَا تَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَدًا إِلَّا قَالَتْ بِأَبِي فَقُلْنَا أَسَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا قَالَتْ نَعَمْ بِأَبِي فَقَالَ لِتَخْرُجْ الْعَوَاتِقُ ذَوَاتُ الْخُدُورِ أَوْ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ وَالْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى فَقُلْتُ أَلْحَائِضُ فَقَالَتْ أَوَلَيْسَ تَشْهَدُ عَرَفَةَ وَتَشْهَدُ كَذَا وَتَشْهَدُ كَذَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1652

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف۔۔۔ ہم سے مومل بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے حفصہ بنت سیرین نے بیان کیا کہ ہم اپنی کنواری لڑکیوں کو باہر نکلنے سے روکتے تھے۔ پھر اسیک خاتون آئیں او ربنی خلف کے محل میں ( جو بصرے میں تھا ) ٹھہریں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن ( ام عطیہ رضی اللہ عنہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے گھرمیں تھیں۔ ان کے شوہر نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے او رمیری بہن چھ جہادوں میں ان کے ساتھ رہی تھیں۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ ہم ( میدان جنگ میں ) زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیںاور مریضوں کی تیمارداری کرتی تھی۔ میری بہن نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہمارے پاس چادر نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم عید گاہ جانے کے لیے باہر نہ نکلیں؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی سہیلی کو اپنی چادر اسے اڑھا دینی چاہئے اور پھر مسلمانوں کی دعا اور نیک کاموں میں شرکت کرنا چاہئے۔ پھر جب امام عطیہ رضی اللہ عنہ خود بصرہ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی پوچھا یا یہ کہا کہ ہم نے ان سے پوچھا انہو ںنے بیان کیا ام عطیہ رضی اللہ عنہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہاں تو میں نے ان سے پوچھا، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری لڑکیاں اور پردہ والیاں بھی باہر نکلیں یا یہ فرمایا کہ پردہ والی دوشیزائیں او رحائضہ عورتیں سب باہر نکلیں اور مسلمانوں کی دعا اور خیر کے کاموں میں شرکت کریں۔ لیکن حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ میں نے کہا اور حائضہ بھی نکلیں؟ انہو ںنے فرمایا کہ کیا حائضہ عورت عرفات اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی ہیں؟ ( پھر عید گاہ ہی جانے میں کیا حرج ہے )
تشریح : اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ حیض والی طواف نہ کرے جو ترجمہ باب کا ایک مطلب تھاکیونکہ حیض والی عورت کو جب نماز کے مقام سے الگ رہنے کا حکم ہوا تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کو جائز نہ ہوگا۔ بعضوں نے کہا باب کا دوسرا مطلب بھی اس سے نکلتا ہے۔ یعنی صفا مروہ کی سعی حائضہ کرسکتی ہے کیونکہ حائضہ عرفات کا وقوف کرسکتی ہے اور صفا مروہ عرفات کی طرح ہے ( وحیدی ) ترجمہ میں کھلی ہوئی تحریف: کسی بھی مسلمان کا کسی بھی مسئلہ کے متعلق مسلک کچھ بھی ہو مگر جہاں قرآن مجید و احادیث نبوی کا کھلا ہوا متن آجائے، دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ترجمہ بلا کم وکیف بالکل صحیح کیا جائے۔ خواہ اس سے ہمارے مزعومہ مسلک پر کیسی ہی چوٹ کیوں نہ لگتی ہو۔ اس لئے کہ اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں ایک ذرہ برابر بھی ترجمہ وتشریح کے نام پر کمی بیشی کرنا وہ بدہ ترین جر م ہے جس کی وجہ سے یہودی تباہ وبرباد ہوگئے۔ اللہ پاک نے صاف لفظوں میں اس کی اس حرکت کا نوٹس لیاہے۔ جیسا کہ ارشادِہے یحرفون الکلم عن مواضعہ ( المائدہ:13 ) یعنی اپنے مقام سے آیات الٰہی کی تحریف کرنا علماءیہود کا بدن ترین شیوہ تھا۔ مگر صد افسوس کہ یہی شیوہ کچھ علماءاسلام کی تحریرات میں نظر آتا ہے۔ جس سے اس کلام نبوی کی تصدیق ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا کہ تم پہلے یہود ونصاریٰ کے قدم برقدم چلنے کی راہ اختیار کر کے گمراہ ہوجاؤ گے۔ اصل مسئلہ! عورتوں کا عیدگاہ میں جانا حتی کہ کنواری لڑکیوں اور حیض والی عورتوں کا نکلنا اور عید کی دعاؤں میں شریک ہونا ایسا مسئلہ ہے جو متعدد احادیث نبوی سے ثابت ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ عہدرسالت میں سختی کے ساتھ اس پر عمل درآمد تھا اور جملہ خواتین اسلام عیدگاہ جایا کرتی تھیں۔ بعد میں مختلف فقہی خیالات وجود پذیر ہوئے اور محترم علماءاحناف نے عورتوں کا میدان عیدگاہ جانا مطلقاً نا جائز قرار دیا۔ بہرحال اپنے خیالات کے وہ خود ذمہ دار ہیں مگر جن احادیث میں عہد نبوی میں عورتوں کا عید گاہ جانا مذکور ہے ان کے ترجمہ میں ردو بدل کرنا انتہائی غیر ذمہ داری ہے۔ اور صد افسوس کہ ہم موجودہ تراجم بخاری شریف میں جو علماء دیوبند کے قلم سے نکل رہے ہیں ایسی غیر ذمہ داریوں کی بکثرت مثالیں دیکھتے ہیں۔ ” تفہیم البخاری“ ہمارے سامنے ہے۔ جس کا ترجمہ وتشریحات بہت محتاط اندازے پر لکھا گیا ہے۔ مگر مسلکی تعصب نے بعض جگہ ہمارے محترم فاضل مترجم تفہیم البخاری کو بھی جادہ اعتدال سے دورکردیا ہے۔ یہاں حدیث حفصہ کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عورت کے عیدگاہ جانے نہ جانے کے بارے میں پوچھا جارہا ہے کہ جس کے پاس اوڑھنے کے لئے چادرنہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کی سہیلی کو چاہئے کہ اپنی چادر اس کو عاریتاً اوڑھا دے تاکہ وہ اس خیر اور دعائے مسلمین کے موقع پر ( عیدگاہ میں ) مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکے۔اس کا ترجمہ مترجم موصوف نے یوں کیا ہے ” اگر ہمارے پاس چادر ( برقعہ ) نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم ( مسلمانوں کے دینی اجتماعات میں شریک ہونے کے لئے باہر نہ نکلیں؟“ ایک بادی النظر سے بخاری شریف کا مطالعہ کرنے والا اس ترجمہ کو پڑھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکتاکہ یہاں عیدگاہ جانے نہ جانے کے متعلق پوچھا جارہا ہے۔ دینی اجتماعات سے وعظ ونصیحت کی مجالس مراد ہوسکتی ہیں۔ اور ان سب میں عورتوں کا شریک ہونا بلا اختلاف جائز ہے اور عہد نبوی میں بھی عورتیں ایسے اجتماعات میں برابر شرکت کرتی تھیں۔ پھر بھلا اس سوال کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بہرحال یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ اللہ توفیق دے کہ علماءکرام اپنے مزعومہ مسالک سے بلند ہو کر احتیاط سے قرآن وحدیث کا ترجمہ کیا کریں۔ وبا للہ التوفیق۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ حیض والی طواف نہ کرے جو ترجمہ باب کا ایک مطلب تھاکیونکہ حیض والی عورت کو جب نماز کے مقام سے الگ رہنے کا حکم ہوا تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کو جائز نہ ہوگا۔ بعضوں نے کہا باب کا دوسرا مطلب بھی اس سے نکلتا ہے۔ یعنی صفا مروہ کی سعی حائضہ کرسکتی ہے کیونکہ حائضہ عرفات کا وقوف کرسکتی ہے اور صفا مروہ عرفات کی طرح ہے ( وحیدی ) ترجمہ میں کھلی ہوئی تحریف: کسی بھی مسلمان کا کسی بھی مسئلہ کے متعلق مسلک کچھ بھی ہو مگر جہاں قرآن مجید و احادیث نبوی کا کھلا ہوا متن آجائے، دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ترجمہ بلا کم وکیف بالکل صحیح کیا جائے۔ خواہ اس سے ہمارے مزعومہ مسلک پر کیسی ہی چوٹ کیوں نہ لگتی ہو۔ اس لئے کہ اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں ایک ذرہ برابر بھی ترجمہ وتشریح کے نام پر کمی بیشی کرنا وہ بدہ ترین جر م ہے جس کی وجہ سے یہودی تباہ وبرباد ہوگئے۔ اللہ پاک نے صاف لفظوں میں اس کی اس حرکت کا نوٹس لیاہے۔ جیسا کہ ارشادِہے یحرفون الکلم عن مواضعہ ( المائدہ:13 ) یعنی اپنے مقام سے آیات الٰہی کی تحریف کرنا علماءیہود کا بدن ترین شیوہ تھا۔ مگر صد افسوس کہ یہی شیوہ کچھ علماءاسلام کی تحریرات میں نظر آتا ہے۔ جس سے اس کلام نبوی کی تصدیق ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا کہ تم پہلے یہود ونصاریٰ کے قدم برقدم چلنے کی راہ اختیار کر کے گمراہ ہوجاؤ گے۔ اصل مسئلہ! عورتوں کا عیدگاہ میں جانا حتی کہ کنواری لڑکیوں اور حیض والی عورتوں کا نکلنا اور عید کی دعاؤں میں شریک ہونا ایسا مسئلہ ہے جو متعدد احادیث نبوی سے ثابت ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ عہدرسالت میں سختی کے ساتھ اس پر عمل درآمد تھا اور جملہ خواتین اسلام عیدگاہ جایا کرتی تھیں۔ بعد میں مختلف فقہی خیالات وجود پذیر ہوئے اور محترم علماءاحناف نے عورتوں کا میدان عیدگاہ جانا مطلقاً نا جائز قرار دیا۔ بہرحال اپنے خیالات کے وہ خود ذمہ دار ہیں مگر جن احادیث میں عہد نبوی میں عورتوں کا عید گاہ جانا مذکور ہے ان کے ترجمہ میں ردو بدل کرنا انتہائی غیر ذمہ داری ہے۔ اور صد افسوس کہ ہم موجودہ تراجم بخاری شریف میں جو علماء دیوبند کے قلم سے نکل رہے ہیں ایسی غیر ذمہ داریوں کی بکثرت مثالیں دیکھتے ہیں۔ ” تفہیم البخاری“ ہمارے سامنے ہے۔ جس کا ترجمہ وتشریحات بہت محتاط اندازے پر لکھا گیا ہے۔ مگر مسلکی تعصب نے بعض جگہ ہمارے محترم فاضل مترجم تفہیم البخاری کو بھی جادہ اعتدال سے دورکردیا ہے۔ یہاں حدیث حفصہ کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عورت کے عیدگاہ جانے نہ جانے کے بارے میں پوچھا جارہا ہے کہ جس کے پاس اوڑھنے کے لئے چادرنہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کی سہیلی کو چاہئے کہ اپنی چادر اس کو عاریتاً اوڑھا دے تاکہ وہ اس خیر اور دعائے مسلمین کے موقع پر ( عیدگاہ میں ) مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکے۔اس کا ترجمہ مترجم موصوف نے یوں کیا ہے ” اگر ہمارے پاس چادر ( برقعہ ) نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم ( مسلمانوں کے دینی اجتماعات میں شریک ہونے کے لئے باہر نہ نکلیں؟“ ایک بادی النظر سے بخاری شریف کا مطالعہ کرنے والا اس ترجمہ کو پڑھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکتاکہ یہاں عیدگاہ جانے نہ جانے کے متعلق پوچھا جارہا ہے۔ دینی اجتماعات سے وعظ ونصیحت کی مجالس مراد ہوسکتی ہیں۔ اور ان سب میں عورتوں کا شریک ہونا بلا اختلاف جائز ہے اور عہد نبوی میں بھی عورتیں ایسے اجتماعات میں برابر شرکت کرتی تھیں۔ پھر بھلا اس سوال کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بہرحال یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ اللہ توفیق دے کہ علماءکرام اپنے مزعومہ مسالک سے بلند ہو کر احتیاط سے قرآن وحدیث کا ترجمہ کیا کریں۔ وبا للہ التوفیق۔