‌صحيح البخاري - حدیث 1649

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَا جَاءَ فِي السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ إِنَّمَا سَعَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِيُرِيَ الْمُشْرِكِينَ قُوَّتَهُ زَادَ الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرٌو سَمِعْتُ عَطَاءً عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1649

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: صفااور مروہ کے درمیان کس طرح دوڑے ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی اس طرح کی کہ مشرکین کو آپ اپنی قوت دکھلا سکیں۔ حمیدی نے یہ اضافہ کیا ہے کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عطاءسے سنا اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث سنی۔
تشریح : حجرا سود کو چومنے یا چھونے کے بعد طواف کرنا چاہیے۔ طواف کیا ہے؟اپنے آپ کو محبوب پر فدا کرنا، قربان کرنا اور پروانہ وار گھوم کر اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا۔ طواف کی فضیلت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من طاف بالبیت سبعا ولا یتکلم الا بسبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الااللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الابا اللہ محیت عنہ عشر سیئات وکتب لہ عشر حسنات ورفع لہ عشر درجات ومن طاف فتکلم وہو فی تلک الحال خاض فی الرحمۃ برجلیہ کخائض الماءبرجلیہ رواہ ابن ماجۃیعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے بیت اللہ شریف کا سات مرتبہ طواف کیا اور سوائے تسبیح و تحمید کے کوئی فضول کلام اپنی زبان سے نہ نکالا۔ اس کے دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بلند ہوتے ہیں اور اگر کسی نے حالت طواف میں تسبیح وتحمید کے ساتھ لوگوں سے کچھ کلام بھی کیا وہ رحمت الٰہی میں اپنے دونوں پیروں تک داخل ہوجاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے پیروں تک پانی میں داخل ہوجائے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ سوائے تسبیح وتحمیدکے اور کچھ کلام نہ کرنے والا اللہ کی رحمت میں اپنے قدموں سے سرتک داخل ہوجاتا ہے اور کلام کرنے والا صرف پیروں تک۔ طواف کی ترکیب یہ ہے کہ حجر اسود کو چومنے کے بعد بیت اللہ شریف کو بائیں ہاتھ کرکے رکن یمانی تک ذرا تیز تیزاس طرح چلیں کہ قدم قریب قریب پڑیں اور کندھے ہلیں۔ اسی اثناءمیںسبحان اللہ والحمداللہ ولا الہ الااللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ! ان مبارک کلمات کو پڑھتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کی شان کاکامل دھیان رکھے۔ اس کی توحید کو پورے طورپر دل میں جگہ دے۔ اس پر پورے پورے توکل کا اظہار کرے۔ ساتھ ہی یہ دعا بھی پڑھے۔ اللہم قنعنی بمارزقنی وبارک لی فیہ واخلف علی کل غائبۃ لی بخیر ( نیل الاوطار ) ترجمہ:الٰہی مجھ کو جوکچھ تو نے نصیب کیا اس پر قناعت کرنے کی توفیق عطا کر اور اس میں بھی برکت دے! اور میرے اہل وعیال ومال اورمیری ہرپوشیدہ چیز کی تو خیریت کے ساتھ حفاظت فرما۔ اللہم انی اعوذبک من الشک والشرک والنفاق والشقاق وسوءالاخلاق، ( نیل ) الٰہی میں شرک سے، دین میں شک کرنے سے اور نفاق و دو غلے پن اور نافرمانی اور تمام بری عادتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تسبیح وتحمید پڑھتا ہوا اور ان دعاؤں کو بار بار دہراتا ہوارکن یمانی پر دلکی چال سے چلے۔ رکن یمانی خانہ کعبہ کے جنوبی کونے کا نام ہے جس کو صرف چھونا چاہیے، بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کونے پرستر فرشتے مقر رہیں۔جب طواف کرنے والا حجر اسود سے ملتزم رکن عراقی اور میزاب رحمت پر سے ہوتا ہوا یہاںپہنچ کر دین ودنیا کی بھلائی کے لئے بارگاہ الٰہی میں خلوص دل کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو یہ فرشتے آمین کہتے ہیں۔رکن یمانی پر زیادہ تر یہ دعا پڑھنی چاہئے اللہم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدیناوالآخرۃ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقناعذاب النار ( مشکوۃ ) یعنی یا اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں سلامتی چاہتا ہوں، اے معبود برحق! تو مجھ کو دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں عطا فرمااور دوزخ کی آگ سے ہم کو بچالے۔ رمل فقط تین چکروں میں کرنا چاہئے۔ رمل یہ مطلب ہے کہ تین پہلے پھیروں میں ذرا اکڑکر شانہ ہلاتے ہوئے چلا جائے۔ یہ رمل حجر اسود سے طواف شروع کرتے ہوئے رکن یمانی تک ہوتا ہے۔ رکن یمانی پر رمل کو موقوف کیا جائے اور حجر اسود تک باقی حصہ میں نیز باقی چار شوطوں میں معمولی چال چلا جائے۔ اس طوف میں اضطباع بھی کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ احرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں شانے پر ڈال لیا جائے۔ ایک چکر پورا کر کے جب واپس حجراسود آؤ تو حجرا سود کی دعا پڑھ کر اس کو چوما یا ہاتھ لگایا جائے۔ اب ایک چکر پورا ہوا۔ اسی طرح دورسرا اور تیسرا پھیرا کرے۔ ان تین پھیروں میں رمل کرے۔ اس کے بعد چار پھیرے بغیر رمل کے کرے۔ ایک طواف کے لئے یہ ساتھ پھیرے ہوتے ہیں۔ جن کے بعد بیت اللہ کا ایک طواف پورا ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف مثل نماز کے ہے۔ اس میں باتیں کرنی منع ہیں۔ خدا کاذکر جتنا چاہے کرے۔ ایک طواف پورا کرچکنے کے بعد مقام ابراہیم پر طواف کی دو رکعت نماز پڑھے۔ اس پہلے طواف کا نام طواف قدوم ہے۔ رمل اور اضطباع اس کے سوا اور کسی طواف میں نہ کرنا چاہئے۔ مقام ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھنے کے لئے آتے ہوئے مقام ابراہیم کو اپنے اور کعبہ شریف کے درمیان کرکے یہ آیت پڑھے: واتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ اِبرَاہِیمَ مُصَلیًّ ( البقرۃ: 125 ) پھر دورکعت دوگانہ پڑھے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون اور دوسری میں سورہ اخلاص پڑھے۔ اگر اضطباع کیا ہوا ہے اس کو کھول دے۔ سلام پھیر کر مندرجہ ذیل دعا نہایت انکساری سے پڑھے اور خلوص دل سے اپنے اور دوسروں کے لئے دعائیں مانگے۔ دعا یہ ہے: اللہم انک تعلم سری وعلانیتی فاقبل معذرتی وتعلم حاجتی فاعظمنی سولی وتعلم ما فی نفسی فاغفر لی ذنوبی اللہم انی اسئلک ایمانا یباشر قلبی ویقینا صادقا حتی اعلم انہ لا یصیبنی الا ماکتب لی ورضا بما قسمت لی یا ارحم الراحمین ( طبرانی ) ( ترجمہ ) یا اللہ !تو میری ظاہر وپوشیدہ حالت سے واقف ہے۔ پس میرے عذروں کو قبول فرما لے۔ تو میری حاجتوں سے بھی واقف ہے پس میرے سوال کو پورا کردے۔ تو میرے نفس کی حالت جانتا ہے پس میرے گناہوں کو بخش دے۔ اے مولا! میں ایساایمان چاہتا ہوں جو میرے دل میں رچ جائے اور یقین صادق کا طلبگارہوں یہاں تک کہ میرے دل میں جم جائے کہ مجھے وہی دکھ پہنچ سکتاہے جو تو لکھ چکا ہے اور میں قسمت کے لکھے پر ہر وقت راضی برضاہوں۔ اے سب سے بڑے مہربان! تو میری دعاقبول فرمالے۔ آمین۔ طواف کی فضیلت میں عمر وبن شعیب اپنے باپ سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاالمرءیرید الطواف بالبیت اقبل یخوض الرحمۃ فاذادخلہ غمرتہ ثم لا یرفع قدما ولا یضع قدما الا کتب اللہ لہ بکل قدم خمس مائۃ حسنۃ وحط عنہ خمسۃ مائۃ سیئۃ ورفعت لہ خمس مائۃ درجۃ الحدیث ( درمنثور، ج : 120/1 ) یعنی انسان جب بیت اللہ شریف کے طواف کا ارادہ کرتا ہے تو رحمت الٰہی میں داخل ہوجاتا ہے پھر طواف شروع کرتے وقت رحمت الٰہی اس کو ڈھانپ لیتی ہے پھر وہ طواف میںجو بھی قدم اٹھا تا ہے اور زمین پر رکھتا ہے ہر ہر قدم کے بدلے اس کو پانچ سونیکیاں ملتی ہیں اور پانچ سوہ گنا معاف ہوتے ہیں اور اس کے پانچ سو درجے بلند کئے جاتے ہیں۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ روایت کرتے ہیں کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامن طاف بالبیت سبعا وصلی خلف المقام رکعتین وشرب من ماءزمزم غفرت ذنوبہ کلہا بالغۃ ما بلغت یعنی جس نے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔ پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت نماز ادا کی اور زمزم کا پانی پیا اس کے جتنے بھی گناہوں سب معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ( در منثور ) مسئلہ: طواف شروع کرتے وقت حاجی اگر مفرد یعنی صرف حج کا احرام باندھ کر آیا ہے تو دل میں طواف قدوم کی نیت کرے اور اگر قارن یا متمتع ہے تو طواف عمرہ کی نیت کر کے طواف شروع کرے۔ یاد رہے کہ نیت دل کا فعل ہے، زبان سے کہنے کی حاجت نہیں ہے۔ بہت سے نا واقف حاجی صاحبان جب شروع میں حجر اسود کو آکر بوسہ دیتے ہیں اور طواف شروع کرتے ہیں تو تکبیرتحریمہ کی طرح تکبیر کہہ کر رفع یدین کرکے زبان سے نیت کرتے ہیں، یہ بے ثبوت ہے لہذا اس سے بچنا چاہئے ( زاد المعاد ) بیہقی کی روایت میں اس قدر ضرور آیا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دے کر دونوں ہاتھوں کو اس پر رکھ کر پھر ان ہاتھوں کو منہ پر پھیر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ طواف کرنے میں مرد و عورت کا یکساں حکم ہے۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ عورت کسی طواف میں رمل اور اضطباع نہ کرے ( جلیل المناسک ) حیض اور نفاق والی عورت صرف طواف نہ کرے۔ باقی حج کے تمام کام بجا لائے۔ حضرت عائشہ کو حائضہ ہونے کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ فافعلی ما یفعل الحاج غیر ان لا تطوفی بالبیت حتی تطہری ( متفق علیہ ) یعنی طواف بیت اللہ کے سوا اور سب کام کر جو حاجی کرتے ہیں یہاں تک کہ توپاک ہو۔ اگر حالت حیض ونفاس میں طواف کرلیا تو طواف ہوگیا۔ مگر فدیہ میں ایک بکری یا ایک اونٹ ذبح کرنا لازمی ہے۔ ( فتح الباری ) مستحاضہ عورت اور سلسل بول والے کو طواف کرنا درست ہے ( مشکوۃ ) بیت اللہ شریف میں پہنچ کر سوائے عذر حیض ونفاس کے باقی کسی طرح کا اور کیسا ہی عذر کیوںنہ ہو جب تک ہوش وحواس صحیح طور پر قائم ہیں اور راستہ صاف ہے تو محرم کوطواف قدوم اور سعی کرنا ضروری ہے۔ طواف کی قسمیں ! طواف چار طرح کا ہوتاہے ( 1 ) طواف قدوم جو بیت اللہ شریف میں پہلی دفعہ آتے ہی حجر اسود کو چھونے کے بعد کیا جاتاہے۔ ( 2 ) طواف عمرہ جو عمرے کا احرام باندھ کر کیا جاتاہے۔ ( 3 ) طواف افاضہ جو دسویں ذی الحجہ کو یوم نحر میں قربانی وغیرہ سے فارغ ہو کر اور احرام کھول کرکیا جاتاہے۔ اس کوطواف زیارت بھی کہتے ہیں۔ ( 4 ) طواف وداع جو بیت اللہ شریف سے رخصت ہوتے وقت آخری طواف کیا جاتاہے۔ مسئلہ: بہتر تو یہی ہے کہ ہر سات پھیروں کا جو ایک طواف کہلاتا ہے اس کے بعد مقام ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھی جائے۔ لیکن اگر چند طواف ملا کر آخر میں صرف دو رکعت پڑھ لی جائیں تو بھی کافی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا بھی کیا ہے۔ ( ایضاح الحجہ ) مسئلہ : طواف قدوم، طواف عمرہ، طواف وداع میں ان دورکعتوں کے بعد بھی حجراسود کو بوسہ دینا چاہئے۔ تنبیہ: ائمہ اربعہ اور تمام علمائے سلف وخلف کا متفقہ فیصلہ ہے کہ چومنا چاٹنا چھونا صرف حجر اسود اور رکن یمانی کے لئے ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔عن ابن عمر قال لم ارالنبی صلی اللہ علیہ وسلم یستلم من البیت الا الرکنین الیمانین ( متفق علیہ ) یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے سوائے حجراسود اور رکن یمانی کے بیت اللہ کی کسی اور چیز کو چھوتے ہوئے کبھی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ پس استلام صرف ان ہی دو کے لئے ہے۔ان کے علاوہ مساجد ہوں یا مقابر اولیاءصلحاءہوں یا حجرات ومغارات رسل ہوں یا اور تاریخی یاد گاریں ہوں کسی کو چومنا چاٹنا چھونا ہرگز ہر گز جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔ جماعت سلف امت رحمہم اللہ مقام ابراہیم اور احجار مکہ کو بوسہ دینے سے قطعاً منع کیا کرتے تھے۔ پس حاجی صاحبان کو چاہئے کہ حجراسود اور رکن یمانی کے سوا اور کسی جگہ کے ساتھ یہ معاملات بالکل نہ کریں ورنہ نیکی برباد گناہ لازم کی مثال صادق آئے گی۔ بہت سے ناواقف بھائی مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھنے کے بعد مقام ابراہیم کے دروازے کی جالیوں کو پکڑ کر اور کڑوں میں ہاتھ ڈال کردعائیںکرتے ہیں۔ یہ بھی عوام کی ایجاد ہے جس کا سلف سے کوئی ثبوت نہیں۔ پس ایسی بدعات سے بچنا ضروری ہے۔ بدعت ایک زہر ہے جو تمام نیکیوںکو برباد کردیتا ہے۔حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من احدث فی امرناہذا مالیس منہ فہو رد ( متفق علیہ ) یعنی جس نے ہمارے اس دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا کام ایجاد کیا جس کا پتہ اس دین میں نہ ہو وہ مردود ہے۔ مقام ابراہیم پر دورکعت نماز ادا کر کے مقام ملتزم پر آنا چاہئے۔ یہ جگہ حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے بیچ میں ہے۔ یہاں پر سات پھیروں کے بعد دورکعت نماز کے بعد آنا چاہئے۔یہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے یہاں کا پردہ پکڑ کر خانہ کعبہ سے لپٹ کر دیوار پر گال رکھ کر ہاتھ پھیلا کر دل کھول کو خوب رو رو کر دین ونیا کی بھلائی کے لئے دعائیں کریں۔ اس مقام پر یہ دعابھی مناسب ہے:اللہم لک الحمد حمدا یوافی نعمک ویکافی مزید ک احمد ک بجمیع محامد ک ماعملت وما اعلم علی جمیع نعمک ما علمت منہا ومالم اعلم وعلی کل حال اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد اللہم اعذنی من کل سوءوقنعنی بمارزقتنی وبارک لی فیہ اللہم اجعلنی من اکرم وفدک عندک والزمنی سبیل الاستقامۃ حتی القاک یا رب العالمین ( اذکار نووی ) ( ترجمہ ) یا اللہ! کل تعریفوں کا مستحق تو ہی ہے میں تیری وہ تعریفیں کرتا ہوں جو تیری دی ہوئی نعمتوں کا شکریہ ہوسکیں اور اس شکریہ پر جو نعمتیں تیری جانب سے زیادہ ملیں ان کا بدلہ ہوسکیں۔ پھر میں تیری ان نعمتوں کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں سب ہی کا ان خوبیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں جن کا مجھ کو علم ہے اور جن کا نہیں غرض ہرحال میں میں تیری ہی تعریفیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر درود وسلام بھیج۔ یا اللہ! تو مجھ کو شیطان مردود سے اور ہر برائی سے پناہ میں رکھ اور جو کچھ تو نے مجھ کو دیا ہے اس پر قناعت کی توفیق عطا کر اور اس میں برکت دے۔ یا اللہ! تو مجھ کو بہترین مہمانوں میں شامل کر اور مرتے دم تک مجھ کو تو سیدھے راستے پر ثابت قدم رکھ یہاں تک کہ میری تجھ سے ملاقات ہو۔ یہ طواف جو کیا گیا طواف قدوم کہلاتا ہے۔ جو مکہ شریف یا میقات کے اندر رہتے ہیں، ان کے لئے یہ سنت نہیں ہے اور جو عمرہ کی نیت سے مکہ میں آئیں ان پر بھی طواف قدوم نہیں ہے۔ اس طواف سے فارغ ہوکر پھر حجر اسود کا استلام کیا جائے کہ یہ افتتاح سعی کا استلام ہے۔ پھر کمانی دار دروازے سے نکل سیدھے باب صفا کی طرف جائیں اور باب صفا سے نکلتے وقت یہ دعاءپڑھیں بسم اللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ رب اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب فضلک ( ترمذی ) ( ترجمہ ) ” اللہ کے مقدس نام کی برکت سے اور اللہ کے پیارے رسول پر درود وسلام بھیجتا ہوا باہر نکلتا ہوں۔ اے اللہ! میرے لئے اپنے فضل وکرم کے دروازے کھول دے۔ اس دعا کو پڑھتے ہوئے پہلے بایاں قدم مسجد حرام سے باہر کیا جائے پھر دایاں۔ کو ہ صفاپر چڑھائی! باب صفا سے نکل کر سیدھے کوہ صفاپر جائیں۔ قریب ہونے پر آیت شریفہ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ تلاوت کریں۔ پھرکہیں ابدا بما بداللہ ( چونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر میں پہلے صفا کا نام لیا ہے اس لئے میں بھی پہلے صفا ہی سے سعی شروع کرتا ہوں ) یہ کہہ کر سیڑھیوں سے پہاڑی کے اوپر اتنا چڑھ جائیں کہ بیت اللہ شریف کا پردوہ دکھائی دینے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہے۔ عن ابی ہریرۃ قال اقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدخل مکۃ فاقبل الی الحجر فاستلمہ ثم طاف بالبیت ثم اتی الصفا فعلاہ حتی ینظر الی البیت الحدیث رواہ ابوداود یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ شریف میں داخل ہوئے تو آپ نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر طواف کیا۔ پھر آپ صفا کے اوپر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ بیت اللہ آپ کو نظر آنے لگا۔ پس اب قبلہ روہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر پہلے تین دفعہ کھڑے کھڑے اللہ اکبر کہیں۔ پھر یہ دعا پڑھیں۔ لاالہ الا اللہ وحدہ اللہ اکبر لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی شئی قدیر لا الہ الا اللہ وحدہ انجزو عدہ ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ ( مسلم ) یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک کا اصلی مالک وہی ہے، اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں۔ وہ جو چاہے سو ہوسکتا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے جس نے غلبہ اسلام کی بابت اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی امداد کی اور اس اکیلے نے تمام کفارومشرکین کے لشکروں کو بھگا دیا۔“ اس دعا کو پڑھ کر پھردرود شریف پڑھیں پھر خوب دل لگا کر جوچاہیں دعا مانگیں۔ تین دفعہ اسی طرح نعرہ تکبیر تین تین بار بلند کرکے مذکورہ بالادعا پڑھ کر درودشریف کے بعد خوب دعائیں کریں۔ یہ دعاکی قبولیت کی جگہ ہے۔ پھر واپسی سے پہلے مندرجہ ذیل دعا پڑھ کر ہاتھوں کو منہ پر پھیرلیں۔ اللہم انک قلت ادعونی استجب لکم اونک لا تخلف المیعاد انی اسئلک کماہدیتنی للاسلام ان لا تنزعہ منی حتی توفنی وانا مسلم ( موطا ) یا اللہ تو نے دعا قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ پس تونے جس طرح مجھے اسلامی زندگی نصیب فرمائی اسی طرح موت بھی مجھ کو اسلام کی حالت میں نصیب فرما۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی! صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو سعی کہتے ہیں، یہ فرائض حج میں داخل ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔ عن صفیۃ بنت شیبۃ قال اخبر تنی بنت ابی تجراۃ قالت دخلت مع نسوۃ من قریش دار آل ابی حسین ننظر الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو یسعی بین الصفا والمروۃ فرائیتہ یسعی وان میزرہ لیدور من شدۃ السعی وسمعتہ یقول اسعوا فان اللہ کتب علیکم السعی رواہ فی شرح السنۃ یعنی صفیہ بنت شیبہ روایت کرتی ہیں کہ مجھے بنت ابی تجراہ نے خبردی کہ میں قریش کی چند عورتوںکے ساتھ آل ابو حسین کے گھر داخل ہوئی۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ سعی کر رہے تھے اور شدت سعی کی وجہ سے آپ کی ازار مبارک ہل رہی تھی۔ آپ فرماتے تھے لوگو سعی کرو، اللہ نے اس سعی کو تمہارے اوپر فرض کیا ہے۔ پس اب صفا سے اتر کر رب اغفرلی وارحم انک انت الاعز الاکرم ( طبرانی ) پڑھتے ہوئے آہستہ آہستہ چلیں۔ جب سبز میل کے پاس پہنچ جائیں ( جو بائیںطرف مسجدحرام کی دیوار سے ملی ہوئی منصوب ہے ) تو یہاں سے رمل کریں یعنی تیز رفتار دوڑتے ہوئے دوسرے سبز میل تک جائیں ( جوکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے گھر کے مقابل ہے ) پھر یہاں سے آہستہ آہستہ اپنی چال پر چلتے ہوئے مروہ پہنچیں۔ راستے میں مذکورہ بالا دعا پڑھتے رہیں۔ جب مروہ پہنچیں تو پہلے دوسری سیڑھی پر چڑ ھ کر بیت اللہ کی جانب رخ کر کھڑے ہوں اور تھوڑا سا داہنی جانب مائل ہوجائیں تاکہ کعبہ کا استقبال اچھی طرح ہوجائے اگر چہ یہاں سے بیت اللہ بوجہ عمارات کے نظر نہیں آتا۔ پھر صفا کی دعائیں یہاں بھی اسی طرح پڑھیں جس طرح صفا پر پڑھی تھیں اور کافی دیر تک ذکرو ودعامیں مشغول رہیں کہ یہ بھی محل اجابت دعاہے۔پھر واپس صفا کو رب اغفروارحمپوری دعاءپڑھتے ہوئے معمولی چال سے سبز میل تک چلیں۔ پھر یہاں سے دوسرے میل تک تیز چلیں۔ اس میل پر پہنچ کر معمولی چال سے صفا پر پہنچیں۔ صفا سے مروہ تک آنا سعی کا ایک شوط کہلاتاہے۔ صفا پر واپس پہنچنے سے سعی کا دوسرا شوط پورا ہوجائے گا۔ اسی طرح سات شوط پورے کرنے ہوںگے۔ ساتواں شوط مروہ پر ختم ہوگا۔ ہر شوط میں مذکورہ بالا دعاؤ ں کے علاوہ سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الہ الااللہخوب دل لگا کر پڑھنا چاہئے۔ چونکہ زمین اونچی ہوتی چلی گئی اس لئے صفا مروہ کی سیڑھیاں زمین میں دب گئی ہیں اور اب پہلی ہی سیڑھی پر کھڑے ہونے سے بیت اللہ کا نظر آنا ممکن ہے۔ لہٰذااب کئی درجوں پر چڑھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ سعی میں کسی قسم کی تخصیص عورت کے لئے نہیں آئی۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں ہیں۔ ضروری مسائل! طواف یا سعی کی حالت میں نماز کی جماعت کھڑی ہوجائے تو طواف یا سعی کو چھوڑ کر جماعت میں شامل ہو جاناچاہئے۔ نیز پیشاب یا پائخانہ یا اور کوئی ضروری حاجت در پیش ہو تو اس سے فارغ ہو کر باوضو جہاں طواف یا سعی کو چھوڑ ا تھا وہیں سے باقی کو پورا کرے۔ بیمار کو پکڑ کریا چا رپائی یا سواری پر بیٹھا کر طواف اور سعی کرانی جائز ہے۔ قدامہ بن عبداللہ بن عمار روایت کرتے ہیں۔ رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسعی بین الصفا والمروۃ علی بعیر ( مشکوۃ ) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اونٹ پر سوار ہوکر مروہ کے درمیان سعی کررہے تھے۔ اس پر حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ عذر کی وجہ سے آپ نے طواف وسعی میں سواری کا استعمال کیا تھا۔ قارن حج اور عمرے کا طواف اور سعی ایک ہی کرے۔ حج وعمرہ کے ئے علیحدہ علیحدہ دوبار طواف وسعی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ( بخاری مسلم ) عورتیں طواف اور سعی میں مردوں میں خلط ملط ہو کر نہ چلیں۔ ایک کنارہ ہوکر چلیں ( صحیحین ) سعی کے بعد! صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہونے کے بعد اگر حج تمتع کی نیت سے احرام باندھا گیا تھا تواب حجامت کرا کر حلال ہوجانا چاہئے۔ اور احرام حج قران یا حج افراد کا تھا تو نہ حجامت کرانی چاہئے نہ احرام کھولنا چاہئے۔ حج تمتع کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ مروہ پر بال کتروا دے اور دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں بال منڈوائے۔ عورت کو بال منڈوانے منع ہیں۔ ہاں چٹیا کی تھوڑی سی نوک کتر دینی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔ لیس علی النساءالحلق انما علی النساءالتقصیر ( ابوداؤد ) یعنی عورتوں کے لئے سرمنڈانا نہیں ہے بلکہ صرف چٹیامیں سے چند بال کاٹ ڈالنا کافی ہے۔ ان سب کاموں سے فارغ ہوکر چاہ زمزم کا پانی پینا چاہئے۔اس قدر کہ پیٹ اور پسلیاں خوب تن جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق اتنا نہیں پیتا کہ اس کی پسلیاںتن جائیں۔ آبِ زمزم جس ارادے سے پیا جائے وہ پورا ہوتا ہے۔ شفا کے ارادے سے پیا جائے تو شفاملتی ہے۔ بھوک پیاس کی دوری کے لئے پیا جائے تو بھوک پیاس دور ہوتی ہے۔ اور اگر دشمن کے خوف سے، کسی آفت کے ڈر سے، روز محشر کی گھبراہٹ سے محفوظ رہنے کی نیت سے پیا جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ امن دیتا ہے۔ ( حاکم، دارقطنی وغیرہ ) آبِ زمزم پینے کے آداب! زمزم شریف کا پانی قبلہ رخ ہوکر کھڑے ہوکر پینا چاہیے۔ درمیان میں تین سانس لیں۔ ہر دفعہ شروع میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد اللہ پڑھنا چاہئے اور پیتے وقت یہ دعا پڑھنی مسنون ہے۔ اللہم انی اسئلک علما نافعاورزقاواسعاو شفاءمن کل داء ( حاکم دارقطنی ) یا اللہ! میں تجھ سے علم نفع دینے والا اور روزی فراخ اور ہر بیماری سے شفا چاہتا ہوں۔ حجرا سود کو چومنے یا چھونے کے بعد طواف کرنا چاہیے۔ طواف کیا ہے؟اپنے آپ کو محبوب پر فدا کرنا، قربان کرنا اور پروانہ وار گھوم کر اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا۔ طواف کی فضیلت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من طاف بالبیت سبعا ولا یتکلم الا بسبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الااللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الابا اللہ محیت عنہ عشر سیئات وکتب لہ عشر حسنات ورفع لہ عشر درجات ومن طاف فتکلم وہو فی تلک الحال خاض فی الرحمۃ برجلیہ کخائض الماءبرجلیہ رواہ ابن ماجۃیعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے بیت اللہ شریف کا سات مرتبہ طواف کیا اور سوائے تسبیح و تحمید کے کوئی فضول کلام اپنی زبان سے نہ نکالا۔ اس کے دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بلند ہوتے ہیں اور اگر کسی نے حالت طواف میں تسبیح وتحمید کے ساتھ لوگوں سے کچھ کلام بھی کیا وہ رحمت الٰہی میں اپنے دونوں پیروں تک داخل ہوجاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے پیروں تک پانی میں داخل ہوجائے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ سوائے تسبیح وتحمیدکے اور کچھ کلام نہ کرنے والا اللہ کی رحمت میں اپنے قدموں سے سرتک داخل ہوجاتا ہے اور کلام کرنے والا صرف پیروں تک۔ طواف کی ترکیب یہ ہے کہ حجر اسود کو چومنے کے بعد بیت اللہ شریف کو بائیں ہاتھ کرکے رکن یمانی تک ذرا تیز تیزاس طرح چلیں کہ قدم قریب قریب پڑیں اور کندھے ہلیں۔ اسی اثناءمیںسبحان اللہ والحمداللہ ولا الہ الااللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ! ان مبارک کلمات کو پڑھتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کی شان کاکامل دھیان رکھے۔ اس کی توحید کو پورے طورپر دل میں جگہ دے۔ اس پر پورے پورے توکل کا اظہار کرے۔ ساتھ ہی یہ دعا بھی پڑھے۔ اللہم قنعنی بمارزقنی وبارک لی فیہ واخلف علی کل غائبۃ لی بخیر ( نیل الاوطار ) ترجمہ:الٰہی مجھ کو جوکچھ تو نے نصیب کیا اس پر قناعت کرنے کی توفیق عطا کر اور اس میں بھی برکت دے! اور میرے اہل وعیال ومال اورمیری ہرپوشیدہ چیز کی تو خیریت کے ساتھ حفاظت فرما۔ اللہم انی اعوذبک من الشک والشرک والنفاق والشقاق وسوءالاخلاق، ( نیل ) الٰہی میں شرک سے، دین میں شک کرنے سے اور نفاق و دو غلے پن اور نافرمانی اور تمام بری عادتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تسبیح وتحمید پڑھتا ہوا اور ان دعاؤں کو بار بار دہراتا ہوارکن یمانی پر دلکی چال سے چلے۔ رکن یمانی خانہ کعبہ کے جنوبی کونے کا نام ہے جس کو صرف چھونا چاہیے، بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کونے پرستر فرشتے مقر رہیں۔جب طواف کرنے والا حجر اسود سے ملتزم رکن عراقی اور میزاب رحمت پر سے ہوتا ہوا یہاںپہنچ کر دین ودنیا کی بھلائی کے لئے بارگاہ الٰہی میں خلوص دل کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو یہ فرشتے آمین کہتے ہیں۔رکن یمانی پر زیادہ تر یہ دعا پڑھنی چاہئے اللہم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدیناوالآخرۃ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقناعذاب النار ( مشکوۃ ) یعنی یا اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں سلامتی چاہتا ہوں، اے معبود برحق! تو مجھ کو دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں عطا فرمااور دوزخ کی آگ سے ہم کو بچالے۔ رمل فقط تین چکروں میں کرنا چاہئے۔ رمل یہ مطلب ہے کہ تین پہلے پھیروں میں ذرا اکڑکر شانہ ہلاتے ہوئے چلا جائے۔ یہ رمل حجر اسود سے طواف شروع کرتے ہوئے رکن یمانی تک ہوتا ہے۔ رکن یمانی پر رمل کو موقوف کیا جائے اور حجر اسود تک باقی حصہ میں نیز باقی چار شوطوں میں معمولی چال چلا جائے۔ اس طوف میں اضطباع بھی کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ احرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں شانے پر ڈال لیا جائے۔ ایک چکر پورا کر کے جب واپس حجراسود آؤ تو حجرا سود کی دعا پڑھ کر اس کو چوما یا ہاتھ لگایا جائے۔ اب ایک چکر پورا ہوا۔ اسی طرح دورسرا اور تیسرا پھیرا کرے۔ ان تین پھیروں میں رمل کرے۔ اس کے بعد چار پھیرے بغیر رمل کے کرے۔ ایک طواف کے لئے یہ ساتھ پھیرے ہوتے ہیں۔ جن کے بعد بیت اللہ کا ایک طواف پورا ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف مثل نماز کے ہے۔ اس میں باتیں کرنی منع ہیں۔ خدا کاذکر جتنا چاہے کرے۔ ایک طواف پورا کرچکنے کے بعد مقام ابراہیم پر طواف کی دو رکعت نماز پڑھے۔ اس پہلے طواف کا نام طواف قدوم ہے۔ رمل اور اضطباع اس کے سوا اور کسی طواف میں نہ کرنا چاہئے۔ مقام ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھنے کے لئے آتے ہوئے مقام ابراہیم کو اپنے اور کعبہ شریف کے درمیان کرکے یہ آیت پڑھے: واتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ اِبرَاہِیمَ مُصَلیًّ ( البقرۃ: 125 ) پھر دورکعت دوگانہ پڑھے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون اور دوسری میں سورہ اخلاص پڑھے۔ اگر اضطباع کیا ہوا ہے اس کو کھول دے۔ سلام پھیر کر مندرجہ ذیل دعا نہایت انکساری سے پڑھے اور خلوص دل سے اپنے اور دوسروں کے لئے دعائیں مانگے۔ دعا یہ ہے: اللہم انک تعلم سری وعلانیتی فاقبل معذرتی وتعلم حاجتی فاعظمنی سولی وتعلم ما فی نفسی فاغفر لی ذنوبی اللہم انی اسئلک ایمانا یباشر قلبی ویقینا صادقا حتی اعلم انہ لا یصیبنی الا ماکتب لی ورضا بما قسمت لی یا ارحم الراحمین ( طبرانی ) ( ترجمہ ) یا اللہ !تو میری ظاہر وپوشیدہ حالت سے واقف ہے۔ پس میرے عذروں کو قبول فرما لے۔ تو میری حاجتوں سے بھی واقف ہے پس میرے سوال کو پورا کردے۔ تو میرے نفس کی حالت جانتا ہے پس میرے گناہوں کو بخش دے۔ اے مولا! میں ایساایمان چاہتا ہوں جو میرے دل میں رچ جائے اور یقین صادق کا طلبگارہوں یہاں تک کہ میرے دل میں جم جائے کہ مجھے وہی دکھ پہنچ سکتاہے جو تو لکھ چکا ہے اور میں قسمت کے لکھے پر ہر وقت راضی برضاہوں۔ اے سب سے بڑے مہربان! تو میری دعاقبول فرمالے۔ آمین۔ طواف کی فضیلت میں عمر وبن شعیب اپنے باپ سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاالمرءیرید الطواف بالبیت اقبل یخوض الرحمۃ فاذادخلہ غمرتہ ثم لا یرفع قدما ولا یضع قدما الا کتب اللہ لہ بکل قدم خمس مائۃ حسنۃ وحط عنہ خمسۃ مائۃ سیئۃ ورفعت لہ خمس مائۃ درجۃ الحدیث ( درمنثور، ج : 120/1 ) یعنی انسان جب بیت اللہ شریف کے طواف کا ارادہ کرتا ہے تو رحمت الٰہی میں داخل ہوجاتا ہے پھر طواف شروع کرتے وقت رحمت الٰہی اس کو ڈھانپ لیتی ہے پھر وہ طواف میںجو بھی قدم اٹھا تا ہے اور زمین پر رکھتا ہے ہر ہر قدم کے بدلے اس کو پانچ سونیکیاں ملتی ہیں اور پانچ سوہ گنا معاف ہوتے ہیں اور اس کے پانچ سو درجے بلند کئے جاتے ہیں۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ روایت کرتے ہیں کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامن طاف بالبیت سبعا وصلی خلف المقام رکعتین وشرب من ماءزمزم غفرت ذنوبہ کلہا بالغۃ ما بلغت یعنی جس نے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔ پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت نماز ادا کی اور زمزم کا پانی پیا اس کے جتنے بھی گناہوں سب معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ( در منثور ) مسئلہ: طواف شروع کرتے وقت حاجی اگر مفرد یعنی صرف حج کا احرام باندھ کر آیا ہے تو دل میں طواف قدوم کی نیت کرے اور اگر قارن یا متمتع ہے تو طواف عمرہ کی نیت کر کے طواف شروع کرے۔ یاد رہے کہ نیت دل کا فعل ہے، زبان سے کہنے کی حاجت نہیں ہے۔ بہت سے نا واقف حاجی صاحبان جب شروع میں حجر اسود کو آکر بوسہ دیتے ہیں اور طواف شروع کرتے ہیں تو تکبیرتحریمہ کی طرح تکبیر کہہ کر رفع یدین کرکے زبان سے نیت کرتے ہیں، یہ بے ثبوت ہے لہذا اس سے بچنا چاہئے ( زاد المعاد ) بیہقی کی روایت میں اس قدر ضرور آیا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دے کر دونوں ہاتھوں کو اس پر رکھ کر پھر ان ہاتھوں کو منہ پر پھیر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ طواف کرنے میں مرد و عورت کا یکساں حکم ہے۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ عورت کسی طواف میں رمل اور اضطباع نہ کرے ( جلیل المناسک ) حیض اور نفاق والی عورت صرف طواف نہ کرے۔ باقی حج کے تمام کام بجا لائے۔ حضرت عائشہ کو حائضہ ہونے کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ فافعلی ما یفعل الحاج غیر ان لا تطوفی بالبیت حتی تطہری ( متفق علیہ ) یعنی طواف بیت اللہ کے سوا اور سب کام کر جو حاجی کرتے ہیں یہاں تک کہ توپاک ہو۔ اگر حالت حیض ونفاس میں طواف کرلیا تو طواف ہوگیا۔ مگر فدیہ میں ایک بکری یا ایک اونٹ ذبح کرنا لازمی ہے۔ ( فتح الباری ) مستحاضہ عورت اور سلسل بول والے کو طواف کرنا درست ہے ( مشکوۃ ) بیت اللہ شریف میں پہنچ کر سوائے عذر حیض ونفاس کے باقی کسی طرح کا اور کیسا ہی عذر کیوںنہ ہو جب تک ہوش وحواس صحیح طور پر قائم ہیں اور راستہ صاف ہے تو محرم کوطواف قدوم اور سعی کرنا ضروری ہے۔ طواف کی قسمیں ! طواف چار طرح کا ہوتاہے ( 1 ) طواف قدوم جو بیت اللہ شریف میں پہلی دفعہ آتے ہی حجر اسود کو چھونے کے بعد کیا جاتاہے۔ ( 2 ) طواف عمرہ جو عمرے کا احرام باندھ کر کیا جاتاہے۔ ( 3 ) طواف افاضہ جو دسویں ذی الحجہ کو یوم نحر میں قربانی وغیرہ سے فارغ ہو کر اور احرام کھول کرکیا جاتاہے۔ اس کوطواف زیارت بھی کہتے ہیں۔ ( 4 ) طواف وداع جو بیت اللہ شریف سے رخصت ہوتے وقت آخری طواف کیا جاتاہے۔ مسئلہ: بہتر تو یہی ہے کہ ہر سات پھیروں کا جو ایک طواف کہلاتا ہے اس کے بعد مقام ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھی جائے۔ لیکن اگر چند طواف ملا کر آخر میں صرف دو رکعت پڑھ لی جائیں تو بھی کافی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا بھی کیا ہے۔ ( ایضاح الحجہ ) مسئلہ : طواف قدوم، طواف عمرہ، طواف وداع میں ان دورکعتوں کے بعد بھی حجراسود کو بوسہ دینا چاہئے۔ تنبیہ: ائمہ اربعہ اور تمام علمائے سلف وخلف کا متفقہ فیصلہ ہے کہ چومنا چاٹنا چھونا صرف حجر اسود اور رکن یمانی کے لئے ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔عن ابن عمر قال لم ارالنبی صلی اللہ علیہ وسلم یستلم من البیت الا الرکنین الیمانین ( متفق علیہ ) یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے سوائے حجراسود اور رکن یمانی کے بیت اللہ کی کسی اور چیز کو چھوتے ہوئے کبھی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ پس استلام صرف ان ہی دو کے لئے ہے۔ان کے علاوہ مساجد ہوں یا مقابر اولیاءصلحاءہوں یا حجرات ومغارات رسل ہوں یا اور تاریخی یاد گاریں ہوں کسی کو چومنا چاٹنا چھونا ہرگز ہر گز جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔ جماعت سلف امت رحمہم اللہ مقام ابراہیم اور احجار مکہ کو بوسہ دینے سے قطعاً منع کیا کرتے تھے۔ پس حاجی صاحبان کو چاہئے کہ حجراسود اور رکن یمانی کے سوا اور کسی جگہ کے ساتھ یہ معاملات بالکل نہ کریں ورنہ نیکی برباد گناہ لازم کی مثال صادق آئے گی۔ بہت سے ناواقف بھائی مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھنے کے بعد مقام ابراہیم کے دروازے کی جالیوں کو پکڑ کر اور کڑوں میں ہاتھ ڈال کردعائیںکرتے ہیں۔ یہ بھی عوام کی ایجاد ہے جس کا سلف سے کوئی ثبوت نہیں۔ پس ایسی بدعات سے بچنا ضروری ہے۔ بدعت ایک زہر ہے جو تمام نیکیوںکو برباد کردیتا ہے۔حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من احدث فی امرناہذا مالیس منہ فہو رد ( متفق علیہ ) یعنی جس نے ہمارے اس دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا کام ایجاد کیا جس کا پتہ اس دین میں نہ ہو وہ مردود ہے۔ مقام ابراہیم پر دورکعت نماز ادا کر کے مقام ملتزم پر آنا چاہئے۔ یہ جگہ حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے بیچ میں ہے۔ یہاں پر سات پھیروں کے بعد دورکعت نماز کے بعد آنا چاہئے۔یہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے یہاں کا پردہ پکڑ کر خانہ کعبہ سے لپٹ کر دیوار پر گال رکھ کر ہاتھ پھیلا کر دل کھول کو خوب رو رو کر دین ونیا کی بھلائی کے لئے دعائیں کریں۔ اس مقام پر یہ دعابھی مناسب ہے:اللہم لک الحمد حمدا یوافی نعمک ویکافی مزید ک احمد ک بجمیع محامد ک ماعملت وما اعلم علی جمیع نعمک ما علمت منہا ومالم اعلم وعلی کل حال اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد اللہم اعذنی من کل سوءوقنعنی بمارزقتنی وبارک لی فیہ اللہم اجعلنی من اکرم وفدک عندک والزمنی سبیل الاستقامۃ حتی القاک یا رب العالمین ( اذکار نووی ) ( ترجمہ ) یا اللہ! کل تعریفوں کا مستحق تو ہی ہے میں تیری وہ تعریفیں کرتا ہوں جو تیری دی ہوئی نعمتوں کا شکریہ ہوسکیں اور اس شکریہ پر جو نعمتیں تیری جانب سے زیادہ ملیں ان کا بدلہ ہوسکیں۔ پھر میں تیری ان نعمتوں کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں سب ہی کا ان خوبیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں جن کا مجھ کو علم ہے اور جن کا نہیں غرض ہرحال میں میں تیری ہی تعریفیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر درود وسلام بھیج۔ یا اللہ! تو مجھ کو شیطان مردود سے اور ہر برائی سے پناہ میں رکھ اور جو کچھ تو نے مجھ کو دیا ہے اس پر قناعت کی توفیق عطا کر اور اس میں برکت دے۔ یا اللہ! تو مجھ کو بہترین مہمانوں میں شامل کر اور مرتے دم تک مجھ کو تو سیدھے راستے پر ثابت قدم رکھ یہاں تک کہ میری تجھ سے ملاقات ہو۔ یہ طواف جو کیا گیا طواف قدوم کہلاتا ہے۔ جو مکہ شریف یا میقات کے اندر رہتے ہیں، ان کے لئے یہ سنت نہیں ہے اور جو عمرہ کی نیت سے مکہ میں آئیں ان پر بھی طواف قدوم نہیں ہے۔ اس طواف سے فارغ ہوکر پھر حجر اسود کا استلام کیا جائے کہ یہ افتتاح سعی کا استلام ہے۔ پھر کمانی دار دروازے سے نکل سیدھے باب صفا کی طرف جائیں اور باب صفا سے نکلتے وقت یہ دعاءپڑھیں بسم اللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ رب اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب فضلک ( ترمذی ) ( ترجمہ ) ” اللہ کے مقدس نام کی برکت سے اور اللہ کے پیارے رسول پر درود وسلام بھیجتا ہوا باہر نکلتا ہوں۔ اے اللہ! میرے لئے اپنے فضل وکرم کے دروازے کھول دے۔ اس دعا کو پڑھتے ہوئے پہلے بایاں قدم مسجد حرام سے باہر کیا جائے پھر دایاں۔ کو ہ صفاپر چڑھائی! باب صفا سے نکل کر سیدھے کوہ صفاپر جائیں۔ قریب ہونے پر آیت شریفہ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ تلاوت کریں۔ پھرکہیں ابدا بما بداللہ ( چونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر میں پہلے صفا کا نام لیا ہے اس لئے میں بھی پہلے صفا ہی سے سعی شروع کرتا ہوں ) یہ کہہ کر سیڑھیوں سے پہاڑی کے اوپر اتنا چڑھ جائیں کہ بیت اللہ شریف کا پردوہ دکھائی دینے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہے۔ عن ابی ہریرۃ قال اقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدخل مکۃ فاقبل الی الحجر فاستلمہ ثم طاف بالبیت ثم اتی الصفا فعلاہ حتی ینظر الی البیت الحدیث رواہ ابوداود یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ شریف میں داخل ہوئے تو آپ نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر طواف کیا۔ پھر آپ صفا کے اوپر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ بیت اللہ آپ کو نظر آنے لگا۔ پس اب قبلہ روہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر پہلے تین دفعہ کھڑے کھڑے اللہ اکبر کہیں۔ پھر یہ دعا پڑھیں۔ لاالہ الا اللہ وحدہ اللہ اکبر لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی شئی قدیر لا الہ الا اللہ وحدہ انجزو عدہ ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ ( مسلم ) یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک کا اصلی مالک وہی ہے، اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں۔ وہ جو چاہے سو ہوسکتا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے جس نے غلبہ اسلام کی بابت اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی امداد کی اور اس اکیلے نے تمام کفارومشرکین کے لشکروں کو بھگا دیا۔“ اس دعا کو پڑھ کر پھردرود شریف پڑھیں پھر خوب دل لگا کر جوچاہیں دعا مانگیں۔ تین دفعہ اسی طرح نعرہ تکبیر تین تین بار بلند کرکے مذکورہ بالادعا پڑھ کر درودشریف کے بعد خوب دعائیں کریں۔ یہ دعاکی قبولیت کی جگہ ہے۔ پھر واپسی سے پہلے مندرجہ ذیل دعا پڑھ کر ہاتھوں کو منہ پر پھیرلیں۔ اللہم انک قلت ادعونی استجب لکم اونک لا تخلف المیعاد انی اسئلک کماہدیتنی للاسلام ان لا تنزعہ منی حتی توفنی وانا مسلم ( موطا ) یا اللہ تو نے دعا قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ پس تونے جس طرح مجھے اسلامی زندگی نصیب فرمائی اسی طرح موت بھی مجھ کو اسلام کی حالت میں نصیب فرما۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی! صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو سعی کہتے ہیں، یہ فرائض حج میں داخل ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔ عن صفیۃ بنت شیبۃ قال اخبر تنی بنت ابی تجراۃ قالت دخلت مع نسوۃ من قریش دار آل ابی حسین ننظر الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو یسعی بین الصفا والمروۃ فرائیتہ یسعی وان میزرہ لیدور من شدۃ السعی وسمعتہ یقول اسعوا فان اللہ کتب علیکم السعی رواہ فی شرح السنۃ یعنی صفیہ بنت شیبہ روایت کرتی ہیں کہ مجھے بنت ابی تجراہ نے خبردی کہ میں قریش کی چند عورتوںکے ساتھ آل ابو حسین کے گھر داخل ہوئی۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ سعی کر رہے تھے اور شدت سعی کی وجہ سے آپ کی ازار مبارک ہل رہی تھی۔ آپ فرماتے تھے لوگو سعی کرو، اللہ نے اس سعی کو تمہارے اوپر فرض کیا ہے۔ پس اب صفا سے اتر کر رب اغفرلی وارحم انک انت الاعز الاکرم ( طبرانی ) پڑھتے ہوئے آہستہ آہستہ چلیں۔ جب سبز میل کے پاس پہنچ جائیں ( جو بائیںطرف مسجدحرام کی دیوار سے ملی ہوئی منصوب ہے ) تو یہاں سے رمل کریں یعنی تیز رفتار دوڑتے ہوئے دوسرے سبز میل تک جائیں ( جوکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے گھر کے مقابل ہے ) پھر یہاں سے آہستہ آہستہ اپنی چال پر چلتے ہوئے مروہ پہنچیں۔ راستے میں مذکورہ بالا دعا پڑھتے رہیں۔ جب مروہ پہنچیں تو پہلے دوسری سیڑھی پر چڑ ھ کر بیت اللہ کی جانب رخ کر کھڑے ہوں اور تھوڑا سا داہنی جانب مائل ہوجائیں تاکہ کعبہ کا استقبال اچھی طرح ہوجائے اگر چہ یہاں سے بیت اللہ بوجہ عمارات کے نظر نہیں آتا۔ پھر صفا کی دعائیں یہاں بھی اسی طرح پڑھیں جس طرح صفا پر پڑھی تھیں اور کافی دیر تک ذکرو ودعامیں مشغول رہیں کہ یہ بھی محل اجابت دعاہے۔پھر واپس صفا کو رب اغفروارحمپوری دعاءپڑھتے ہوئے معمولی چال سے سبز میل تک چلیں۔ پھر یہاں سے دوسرے میل تک تیز چلیں۔ اس میل پر پہنچ کر معمولی چال سے صفا پر پہنچیں۔ صفا سے مروہ تک آنا سعی کا ایک شوط کہلاتاہے۔ صفا پر واپس پہنچنے سے سعی کا دوسرا شوط پورا ہوجائے گا۔ اسی طرح سات شوط پورے کرنے ہوںگے۔ ساتواں شوط مروہ پر ختم ہوگا۔ ہر شوط میں مذکورہ بالا دعاؤ ں کے علاوہ سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الہ الااللہخوب دل لگا کر پڑھنا چاہئے۔ چونکہ زمین اونچی ہوتی چلی گئی اس لئے صفا مروہ کی سیڑھیاں زمین میں دب گئی ہیں اور اب پہلی ہی سیڑھی پر کھڑے ہونے سے بیت اللہ کا نظر آنا ممکن ہے۔ لہٰذااب کئی درجوں پر چڑھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ سعی میں کسی قسم کی تخصیص عورت کے لئے نہیں آئی۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں ہیں۔ ضروری مسائل! طواف یا سعی کی حالت میں نماز کی جماعت کھڑی ہوجائے تو طواف یا سعی کو چھوڑ کر جماعت میں شامل ہو جاناچاہئے۔ نیز پیشاب یا پائخانہ یا اور کوئی ضروری حاجت در پیش ہو تو اس سے فارغ ہو کر باوضو جہاں طواف یا سعی کو چھوڑ ا تھا وہیں سے باقی کو پورا کرے۔ بیمار کو پکڑ کریا چا رپائی یا سواری پر بیٹھا کر طواف اور سعی کرانی جائز ہے۔ قدامہ بن عبداللہ بن عمار روایت کرتے ہیں۔ رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسعی بین الصفا والمروۃ علی بعیر ( مشکوۃ ) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اونٹ پر سوار ہوکر مروہ کے درمیان سعی کررہے تھے۔ اس پر حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ عذر کی وجہ سے آپ نے طواف وسعی میں سواری کا استعمال کیا تھا۔ قارن حج اور عمرے کا طواف اور سعی ایک ہی کرے۔ حج وعمرہ کے ئے علیحدہ علیحدہ دوبار طواف وسعی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ( بخاری مسلم ) عورتیں طواف اور سعی میں مردوں میں خلط ملط ہو کر نہ چلیں۔ ایک کنارہ ہوکر چلیں ( صحیحین ) سعی کے بعد! صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہونے کے بعد اگر حج تمتع کی نیت سے احرام باندھا گیا تھا تواب حجامت کرا کر حلال ہوجانا چاہئے۔ اور احرام حج قران یا حج افراد کا تھا تو نہ حجامت کرانی چاہئے نہ احرام کھولنا چاہئے۔ حج تمتع کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ مروہ پر بال کتروا دے اور دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں بال منڈوائے۔ عورت کو بال منڈوانے منع ہیں۔ ہاں چٹیا کی تھوڑی سی نوک کتر دینی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔ لیس علی النساءالحلق انما علی النساءالتقصیر ( ابوداؤد ) یعنی عورتوں کے لئے سرمنڈانا نہیں ہے بلکہ صرف چٹیامیں سے چند بال کاٹ ڈالنا کافی ہے۔ ان سب کاموں سے فارغ ہوکر چاہ زمزم کا پانی پینا چاہئے۔اس قدر کہ پیٹ اور پسلیاں خوب تن جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق اتنا نہیں پیتا کہ اس کی پسلیاںتن جائیں۔ آبِ زمزم جس ارادے سے پیا جائے وہ پورا ہوتا ہے۔ شفا کے ارادے سے پیا جائے تو شفاملتی ہے۔ بھوک پیاس کی دوری کے لئے پیا جائے تو بھوک پیاس دور ہوتی ہے۔ اور اگر دشمن کے خوف سے، کسی آفت کے ڈر سے، روز محشر کی گھبراہٹ سے محفوظ رہنے کی نیت سے پیا جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ امن دیتا ہے۔ ( حاکم، دارقطنی وغیرہ ) آبِ زمزم پینے کے آداب! زمزم شریف کا پانی قبلہ رخ ہوکر کھڑے ہوکر پینا چاہیے۔ درمیان میں تین سانس لیں۔ ہر دفعہ شروع میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد اللہ پڑھنا چاہئے اور پیتے وقت یہ دعا پڑھنی مسنون ہے۔ اللہم انی اسئلک علما نافعاورزقاواسعاو شفاءمن کل داء ( حاکم دارقطنی ) یا اللہ! میں تجھ سے علم نفع دینے والا اور روزی فراخ اور ہر بیماری سے شفا چاہتا ہوں۔