كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَا جَاءَ فِي زَمْزَمَ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا الفَزَارِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدَّثَهُ قَالَ: سَقَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَمْزَمَ، فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ» قَالَ عَاصِمٌ: فَحَلَفَ عِكْرِمَةُ مَا كَانَ يَوْمَئِذٍ إِلَّا عَلَى بَعِيرٍ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: زمزم کا بیان
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں مروان بن معاویہ فزاری نے خبردی، انہیں عاصم نے اور انہیں شعبی نے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کا پانی پلایا تھا۔ آپ نے پانی کھڑے ہوکر پیا تھا۔ عاصم نے بیان کیا کہ عکرمہ نے قسم کھاکر کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اونٹ پر سوار تھے۔
تشریح :
یہ معراج کی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ یہاں امام بخاری اس کو اس لیے لائے کہ اس سے زمزم کے پانی کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس لیے کہ آپ کا سینہ اسی پانی سے دھویا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی احادیث زمزم کے پانی کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں مگر حضرت امیر المؤمنین فی الحدیث کی شرط پر یہی حدیث تھی۔ صحیح مسلم میں آب زمزم کو پانی کے ساتھ خوراک بھی قرار دیا گیا ہے اور بیماروں کے لیے دوا بھی فرمایا گیا ہے۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں مرفوعاً یہ بھی ہے کہ ماءزمزم لما شرب لہ کہ زمزم کا پانی جس لیے پیا جائے اللہ وہ دیتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں وسمیت زمزم لکثرتہا یقال ماءزمزم ای کثیر وقیل لا جتما عہا یعنی اس کا نام زمزم اس لیے رکھا گیا کہ یہ بہت ہے اور ایسے ہی مقام پر بولا جاتا ہے۔ ماءزمزم ای کثیر یعنی یہ پانی بہت بڑی مقدار میں ہے اور اس کے جمع ہونے کی وجہ سے بھی اسے زمزم کہا گیاہے۔
مجاہد نے کہا کہ یہ لفظ ہزمۃ سے مشتق ہے۔ لفظ ہزمہ کے معنے ہیں ایڑیوں سے زمین میں اشارے کرنا۔ چونکہ مشہور ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمین پر ایڑی رگڑنے سے یہ چشمہ نکلا لہٰذا اسے زمزم کہا گیا۔ واللہ اعلم۔
یہ معراج کی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ یہاں امام بخاری اس کو اس لیے لائے کہ اس سے زمزم کے پانی کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس لیے کہ آپ کا سینہ اسی پانی سے دھویا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی احادیث زمزم کے پانی کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں مگر حضرت امیر المؤمنین فی الحدیث کی شرط پر یہی حدیث تھی۔ صحیح مسلم میں آب زمزم کو پانی کے ساتھ خوراک بھی قرار دیا گیا ہے اور بیماروں کے لیے دوا بھی فرمایا گیا ہے۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں مرفوعاً یہ بھی ہے کہ ماءزمزم لما شرب لہ کہ زمزم کا پانی جس لیے پیا جائے اللہ وہ دیتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں وسمیت زمزم لکثرتہا یقال ماءزمزم ای کثیر وقیل لا جتما عہا یعنی اس کا نام زمزم اس لیے رکھا گیا کہ یہ بہت ہے اور ایسے ہی مقام پر بولا جاتا ہے۔ ماءزمزم ای کثیر یعنی یہ پانی بہت بڑی مقدار میں ہے اور اس کے جمع ہونے کی وجہ سے بھی اسے زمزم کہا گیاہے۔
مجاہد نے کہا کہ یہ لفظ ہزمۃ سے مشتق ہے۔ لفظ ہزمہ کے معنے ہیں ایڑیوں سے زمین میں اشارے کرنا۔ چونکہ مشہور ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمین پر ایڑی رگڑنے سے یہ چشمہ نکلا لہٰذا اسے زمزم کہا گیا۔ واللہ اعلم۔