كِتَابُ الحَجِّ بَابٌ: كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الرَّمَلِ صحيح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ وَقَدْ وَهَنَهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ فَأَمَرَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلَاثَةَ وَأَنْ يَمْشُوا مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ وَلَمْ يَمْنَعْهُ أَنْ يَأْمُرَهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِبْقَاءُ عَلَيْهِمْ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: رمل کی ابتدا کیسے ہوئی؟
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ( عمرۃ القضاء ھ میں ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ ) تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں، ان کے ساتھ ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب ( مدینہ منورہ ) کے بخار نے کمزور کردیا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل ( تیز چلنا جس سے اظہار قوت ہو ) کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں اور آپ نے یہ حکم نہیں دیا کہ سب پھیروں میں رمل کریں اس لیے کہ ان پر آسانی ہو۔
تشریح :
رمل کا سب حدیث بالا میں خود ذکر ہے۔ مشرکین نے سمجھا تھا کہ مسلمان مدینہ کی مرطوب آب و ہوا سے بالکل کمزور ہو چکے ہیں۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں ذرا اکڑ کر تیز چال چلیں، مونڈھوں کو ہلاتے ہوئے تاکہ کفار مکہ دیکھیں اور اپنے غلط خیال کو واپس لے لیں۔ بعد میں یہ عمل بطور سنت رسول جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ اب یادگار کے طورپر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ یاد رہے۔ اس وقت کفار مکہ دونوں شامی رکنوں کی طرف جمع ہوا کرتے تھے، اس لیے اسی حصہ میں رمل سنت قرار پایا۔
رمل کا سب حدیث بالا میں خود ذکر ہے۔ مشرکین نے سمجھا تھا کہ مسلمان مدینہ کی مرطوب آب و ہوا سے بالکل کمزور ہو چکے ہیں۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں ذرا اکڑ کر تیز چال چلیں، مونڈھوں کو ہلاتے ہوئے تاکہ کفار مکہ دیکھیں اور اپنے غلط خیال کو واپس لے لیں۔ بعد میں یہ عمل بطور سنت رسول جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ اب یادگار کے طورپر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ یاد رہے۔ اس وقت کفار مکہ دونوں شامی رکنوں کی طرف جمع ہوا کرتے تھے، اس لیے اسی حصہ میں رمل سنت قرار پایا۔