‌صحيح البخاري - حدیث 16

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابُ حَلاَوَةِ الإِيمَانِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ: أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ المَرْءَ لاَ يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 16

کتاب: ایمان کے بیان میں باب: یہ باب ایمان کی مٹھاس کے بیان میں ہے ہمیں محمد بن مثنیٰ نے یہ حدیث بیان کی، ان کو عبدالوہاب ثقفی نے، ان کو ایوب نے، وہ ابوقلابہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ناقل ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔
تشریح : یہاں بھی حضرت امام المحدثین رحمہ اللہ نے مرجیہ اور ان کے کلی وجزوی ہم نواؤں کے عقائد فاسدہ پر ایک کاری ضرب لگائی ہے اور ایمان کی کمی وزیادتی اور ایمان پر اعمال کے اثرانداز ہونے کے سلسلے میں استدلال کیا ہے اور بتلایا ہے کہ ایمان کی حلاوت کے لیے اللہ ورسول کی حقیقی محبت، اللہ والوں کی محبت اور ایمان میں استقامت لازم ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی قولہ حلاوۃ الایمان استعارۃ تخییلیۃ شبہ رغبۃ المومن فی الایمان بشئی حلو واثبت لہ لازم ذلک الشی واضافہ الیہ وفیہ تلمیح الی قصۃ المریض والصحیح لان المریض الصفراوی یجد طعم العسل مرا والصحیح یذوق حلاوتہ علی ماہی علیہ و کلما نقصت الصحۃ شیئا مانقص ذوقہ بقدر ذلک ہذہ الاستعارۃ من اوضح مایقوی استدلال المصنف علی الزیادۃ والنقص۔ یعنی ایمان کے لیے لفظ حلاوت بطوراستعارہ استعمال فرماکر مومن کی ایمانی رغبت کو میٹھی چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور اس کے لازمہ کو ثابت کیا گیا ہے اور اسے اس کی طرف منسوب کیا اس میں مریض اور تندرست کی تشبیہ پر بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ صفراوی مریض شہد کو بھی چکھے گا تواسے کڑوا بتلائے گا اور تندرست اس کی مٹھاس کی لذت حاصل کرے گا۔ گویا جس طرح صحت خراب ہونے سے شہد کامزہ خراب معلوم ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح معاصی کا صفرا جس کے مزاج پر غالب ہے، اسے ایمان کی حلاوت نصیب نہ ہوگی۔ ایمان کی کمی وزیادتی کو ثابت کرنے کے لیے مصنف کا یہ نہایت واضح اور قوی تراستدلال ہے۔ حدیث مذکورمیں حلاوت ایمان کے لیے تین خصلتیں پیش کی گئی ہیں۔ شیخ محی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دین کی ایک اصل عظیم ہے۔ اس میں پہلی چیز اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو قرار دیا گیا ہے جس سے ایمانی محبت مراد ہے۔ اللہ کی محبت کا مطلب یہ کہ توحید الوہیت میں اسے وحدہ لاشریک لہ یقین کرکے عبادت کی جملہ اقسام صرف اس اکیلے کے لیے عمل میں لائی جائیں اور کسی بھی نبی، ولی، فرشتے، جن، بھوت، دیوی، دیوتا، انسان وغیرہ وغیرہ کو اس کی عبادت کے کاموں میں شریک نہ کیاجائے۔ کیونکہ کلمہ لاالہ الااللہ کا یہی تقاضا ہے۔ جس کے متعلق حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب “ الدین الخالص ” میں فرماتے ہیں: وفی ہذہ الکلمۃ نفی واثبات، نفی الالوہیۃ عما سوی اللہ تعالیٰ من المرسلین حتیٰ محمدصلی اللہ علیہ وسلم والملئکۃ حتی جبرئیل علیہ السلام فضلا عن غیرہم من الاولیاءوالصالحین واثباتہا لہ وحدہ لاحق فی ذالک لاحد من المقریبن اذا فہمت ذلک فتامل ہذہ الالوہیۃ التی اثبتہا کلہا لنفسہ المقدسۃ ونفی عن محمدوجبرئیل وغیرہما علیہم السلام ان یکون لہم مثقال حبۃ خردل منہا ( الدین الخاص،ج1ص: 182 ) یعنی اس کلمہ طیبہ میں نفی اور اثبات ہے۔ اللہ پاک کی ذات مقدس کے سوا ہرچیز کے لیے الوہیت کی نفی ہے۔ حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وحضرت جبرئیل علیہ السلام ک کے لیے بھی نفی ہے۔ پھردیگر اولیاءوصلحاءکا توذکر ہی کیا ہے۔ الوہیت خالص اللہ پاک کے لیے ثابت ہے اور مقربین میں سے کسی کے لیے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ جب تم نے یہ سمجھ لیا تو غور کرو کہ یہ الوہیت وہ ہے جس کو اللہ پاک نے خاص اپنی ہی ذات مقدسہ کے لیے ثابت کیا ہے اور اپنے ہرغیر حتیٰ کہ محمدوجبرئیل علیہما السلام تک سے اس کی نفی کی ہے، ان کے لیے ایک رائی کے دانہ برابر بھی الوہیت کا کوئی حصہ حاصل نہیں۔ پس حقیقی محبت الٰہی کا یہی مقام ہے جو لوگ اللہ کی الوہیت میں اس کی عبادت کے کاموں میں اولیاءصلحاءیاابنیاءوملائکہ کوشریک کرتے ہیں۔ ویظنون اللہ جعل نحوا من الخلق منزلۃ یرضی ان العامی یلتجئی الیہم ویرجوہم ویخالفہم ویستغیث بہم ویستعین منہم بقضاءحوائجہ واسعاف مرامہ وانجاح مقامہ ویجعلہم وسائط بینہ وبین اللہ تعالیٰ ہی الشرک الجلی الذی لایغفراللہ تعالیٰ ابدا ( حوالہ مذکور ) اور گمان کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے خاص بندوں کو ایسا مقام دے رکھا ہے کہ عوام ان کی طرف پناہ ڈھونڈیں، ان سے اپنی مرادیں مانگیں، ان سے استعانت کریں اور قضائے حاجات کے لیے ان کو اللہ کے درمیان وسیلہ ٹھہرادیں۔ یہ وہ شرک جلی ہے جس کو اللہ پاک ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا۔ ان اللہ لایغفران یشرک بہ ویغفرمادون ذلک لمن یشاء ( النساء: 48 ) یعنی بے شک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا۔ “ رسول ” کی محبت سے ان کی اطاعت وفرمانبرداری مراد ہے اس کے بغیرمحبت رسول کا دعویٰ غلط ہے۔ نیز محبت رسول کا تقاضا ہے کہ آپ کا ہرفرمان بلندوبالا تسلیم کیاجائے۔ اور ا س کے مقابلہ پر کسی کا کوئی حکم نہ مانا جائے۔ پس جو لوگ صحیح احادیث مرفوعہ کی موجودگی میں اپنے مزعومہ اماموں کے اقوال کو مقدم رکھتے ہیں اور اللہ کے رسول کے فرمان کوٹھکرادیتے ہیں ان کے متعلق سیدالعلامہ حضرت نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تامل فی مقلدۃ المذاہب کیف اقروا علی انفسہم بتقلیدالاموات من العلماءوالاولیاءواعترفوا بان فہم الکتاب والسنۃ کان خاصا لہم واستدلوا لاشراکہم فی الصلحاءبعبارات القوم ومکاشفات الشیوخ فی النوم ورجحوا کلام الامۃ والائمۃ علی کلام اللہ تعالیٰ و رسولہ علی بصیرۃ منہم وعلی علم فماندری ماعذرہم عن ذلک غدا یوم الحساب والکتاب ومایحمیہم من ذلک العذاب والعقاب۔ ( الدین الخاص،ج: 1ص: 196 ) یعنی مذاہب معلومہ کے مقلدین میں غور کرو کہ علماءواولیاءجو دنیا سے رخصت ہوچکے، ان کی تقلید میں کس طور پر گرفتار ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث کا سمجھنا ان ہی اماموں پر ختم ہوچکا، یہ خاص ان ہی کاکام تھا۔ صلحاءکو عبادت الٰہی میں شریک کرنے کے لیے عبارات قوم سے کتربیونت کرکے دلیل پکڑتے ہیں اور شیوخ کے مکاشفات سے جو ان کے خوابوں سے متعلق ہوتے ہیں اور امت اور ائمہ کے کلام کو اللہ و رسول کے کلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ روش صحیح نہیں ہے۔ ہم نہیں جان سکتے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے یہ لوگ کیاعذر بیان کریں گے اور اس دن کے عذاب سے ان کو کون چیز نجات دلاسکے گی۔ الغرض اللہ ورسول کی محبت کا تقاضا یہی ہے جو اوپر بیان ہوا ورنہ صادق آئے گا۔ تعصی الرسول و انت تظہر حبہ ہذا لعمری فی القیاس بدیع لو کان حبک صادقا لاطعتہ ان المحب لمن یحب مطیع اس حدیث نبوی میں دوسری خصلت بھی بہت ہی اہم بیان کی گئی ہے کہ مومن کامل وہ ہے جس کی لوگوں سے محبت خاص اللہ کے لیے ہو اور دشمنی بھی خالص اللہ کے لیے ہو۔ نفسانی اغراض کا شائبہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بابت مروی ہے کہ ایک کافر نے جس کی چھاتی پر آپ چڑھے ہوئے تھے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ تو آپ فوراً ہٹ کر اس کے قتل سے رک گئے اور یہ فرمایا کہ اب میرا یہ قتل کرنا اللہ کے لیے نہ ہوتا۔ بلکہ اس کے تھوکنے کی وجہ سے یہ اپنے نفس کے لیے ہوتا اور مؤمن صادق کا یہ شیوہ نہیں کہ اپنے نفس کے لیے کسی سے عداوت یامحبت رکھے۔ تیسری خصلت میں اسلام وایمان پر استقامت مراد ہے۔ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں ایک سچا مومن دولت ایمان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بلاشک جس میں یہ تینوں خصلتیں جمع ہوں گی اس نے درحقیقت ایمان کی لذت حاصل کی پھر وہ کسی حال میں بھی ایمان سے محرومی پسند نہ کرے گا اور مرتدہونے کے لیے کبھی بھی تیار نہ ہوسکے گا۔ خواہ وہ شہید کردیا جائے، اسلامی تاریخ کی ماضی وحال میں ایسی بہت ہی مثالیں موجود ہیں کہ بہت سے مخلص بندگان مسلمین نے جام شہادت پی لیا مگرارتداد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اللہ پاک ہر مسلمان مرد وعورت کے اندرایسی ہی استقامت پیدا فرمائے۔آمین ابونعیم نے مستخرج میں حسن بن سفیان عن محمد بن المثنیٰ کی روایت سے ویکرہ ان یعود فی الکفر کے آگے بعداذانقذہ اللہ کے الفاظ زیادہ کئے ہیں۔خودامام بخاری قدس سرہ نے بھی دوسری سند سے ان لفظوں کا اضافہ نقل فرمایا ہے۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ان لفظوں کا ترجمہ یہ کہ وہ کفرمیں واپس جانا مکروہ سمجھے اس کے بعد کہ اللہ پاک نے اسے اس سے نکالا۔ مراد وہ لوگ ہیں جو پہلے کافرتھے بعد میں اللہ نے اس کو ایمان واسلام نصیب فرمایا۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہذا الاسناد کلہ بصریون یعنی اس سند میں سب کے سب بصری راوی واقع ہوئے ہیں۔ ایک اشکال اور ا س کا جواب: حدیث مذکورمیں ان یکون اللہ ورسولہ احب الیہ مماسواہما فرمایا گیا ہے۔ جس میں ضمیر تثنیہ “ ھما ” میں اللہ اور رسول ہر دو کو جمع کردیا گیا ہے۔ یہ جمع کرنا اس حدیث سے ٹکراتا ہے جس میں ذکر ہے کہ کسی خطیب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک خطبہ بایں الفاظ دیا تھا من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اظہارخفگی کے لیے فرمایا: بئس الخطیب انت یعنی تم اچھے خطیب نہیں ہو۔ آپ کی یہ خفگی یہاں ضمیر ( ھما ) پر تھی جب کہ خطیب نے “ یعصہما ” کہہ دیا تھا۔اہل علم نے اس اشکال کے کئی جواب دئیے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تعلیم اور خطبہ کے مواقع الگ الگ ہیں۔ حدیث ہذا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور معلم اختصار وجامعیت کے پیش نظر یہاں “ ہما ” ضمیراستعمال فرمائی اور خطیب نے خطبہ کے موقع پر جب کہ تفصیل و تطویل کا موقع تھا۔ اختصار کے لیے “ ہما ” ضمیر استعمال کی جو بہتر نہ تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خفگی فرمائی۔ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ حدیث مذکور میں مقام محبت میں ہردو کو جمع کیا گیا ہے جو بالکل درست ہے کیونکہ اللہ ورسول کی محبت لازم وملزوم، ہردو کی محبت جمع ہوگئی تونجات ہوگئی اور ایمان کا مدار ہردو کی محبت پر ہے اور خطیب مذکور نے معصیت کے معاملہ میں دونوں کوجمع کر دیا تھا جس سے وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ ہردو کی معصیت نقصان کا باعث ہے اور اگرکسی نے ایک کی اطاعت کی اور ایک کی نافرمانی تو یہ موجب نقصان نہیں حالانکہ ایسا خیال بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ اللہ کی اطاعت نہ کرنا بھی گمراہی اور رسول کی نافرمانی بھی گمراہی، اس لیے وہاں الگ الگ بیان ضروری تھا، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ تم کو خطبہ دینا نہیں آتا۔ امام طحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں یوں لکھا ہے کہ خطیب مذکور نے لفظ “ ومن یعصہما ” پر سکتہ کر دیا تھا اور ٹھہر کربعد میں کہا “ فقدغوی ” اس سے ترجمہ یہ ہوگیا تھا کہ جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تونیک ہے اور جونافرمانی کرے وہ بھی، اس طرزادا سے بڑی بھاری غلطی کاامکان تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطیب کو تنبیہ فرمائی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ حدیث مذکورہ میں “ مماسواہما ” کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ “ ممن سواہما ” نہیں فرمایاگیا، اس لیے کہ الفاظ سابقہ میں بطورعموم اہل عقل اور غیراہل عقل یعنی انسان حیوان، جانور، نباتات، جمادات سب داخل ہیں۔ “ ممن سواہما ” کہنے میں خاص اہل عقل مراد ہوتے، اس لیے “ سواہما ” کے الفاظ استعمال کئے گئے اور اس میں اس پر بھی دلیل ہے کہ اس تنبیہ کے استعمال میں کوئی برائی نہیں۔ حدیث مذکورہ میں اس امر پر بھی اشارہ ہے کہ نیکیوں سے آراستہ ہونا اور برائیوں سے دور رہنا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔ یہاں بھی حضرت امام المحدثین رحمہ اللہ نے مرجیہ اور ان کے کلی وجزوی ہم نواؤں کے عقائد فاسدہ پر ایک کاری ضرب لگائی ہے اور ایمان کی کمی وزیادتی اور ایمان پر اعمال کے اثرانداز ہونے کے سلسلے میں استدلال کیا ہے اور بتلایا ہے کہ ایمان کی حلاوت کے لیے اللہ ورسول کی حقیقی محبت، اللہ والوں کی محبت اور ایمان میں استقامت لازم ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی قولہ حلاوۃ الایمان استعارۃ تخییلیۃ شبہ رغبۃ المومن فی الایمان بشئی حلو واثبت لہ لازم ذلک الشی واضافہ الیہ وفیہ تلمیح الی قصۃ المریض والصحیح لان المریض الصفراوی یجد طعم العسل مرا والصحیح یذوق حلاوتہ علی ماہی علیہ و کلما نقصت الصحۃ شیئا مانقص ذوقہ بقدر ذلک ہذہ الاستعارۃ من اوضح مایقوی استدلال المصنف علی الزیادۃ والنقص۔ یعنی ایمان کے لیے لفظ حلاوت بطوراستعارہ استعمال فرماکر مومن کی ایمانی رغبت کو میٹھی چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور اس کے لازمہ کو ثابت کیا گیا ہے اور اسے اس کی طرف منسوب کیا اس میں مریض اور تندرست کی تشبیہ پر بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ صفراوی مریض شہد کو بھی چکھے گا تواسے کڑوا بتلائے گا اور تندرست اس کی مٹھاس کی لذت حاصل کرے گا۔ گویا جس طرح صحت خراب ہونے سے شہد کامزہ خراب معلوم ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح معاصی کا صفرا جس کے مزاج پر غالب ہے، اسے ایمان کی حلاوت نصیب نہ ہوگی۔ ایمان کی کمی وزیادتی کو ثابت کرنے کے لیے مصنف کا یہ نہایت واضح اور قوی تراستدلال ہے۔ حدیث مذکورمیں حلاوت ایمان کے لیے تین خصلتیں پیش کی گئی ہیں۔ شیخ محی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دین کی ایک اصل عظیم ہے۔ اس میں پہلی چیز اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو قرار دیا گیا ہے جس سے ایمانی محبت مراد ہے۔ اللہ کی محبت کا مطلب یہ کہ توحید الوہیت میں اسے وحدہ لاشریک لہ یقین کرکے عبادت کی جملہ اقسام صرف اس اکیلے کے لیے عمل میں لائی جائیں اور کسی بھی نبی، ولی، فرشتے، جن، بھوت، دیوی، دیوتا، انسان وغیرہ وغیرہ کو اس کی عبادت کے کاموں میں شریک نہ کیاجائے۔ کیونکہ کلمہ لاالہ الااللہ کا یہی تقاضا ہے۔ جس کے متعلق حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب “ الدین الخالص ” میں فرماتے ہیں: وفی ہذہ الکلمۃ نفی واثبات، نفی الالوہیۃ عما سوی اللہ تعالیٰ من المرسلین حتیٰ محمدصلی اللہ علیہ وسلم والملئکۃ حتی جبرئیل علیہ السلام فضلا عن غیرہم من الاولیاءوالصالحین واثباتہا لہ وحدہ لاحق فی ذالک لاحد من المقریبن اذا فہمت ذلک فتامل ہذہ الالوہیۃ التی اثبتہا کلہا لنفسہ المقدسۃ ونفی عن محمدوجبرئیل وغیرہما علیہم السلام ان یکون لہم مثقال حبۃ خردل منہا ( الدین الخاص،ج1ص: 182 ) یعنی اس کلمہ طیبہ میں نفی اور اثبات ہے۔ اللہ پاک کی ذات مقدس کے سوا ہرچیز کے لیے الوہیت کی نفی ہے۔ حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وحضرت جبرئیل علیہ السلام ک کے لیے بھی نفی ہے۔ پھردیگر اولیاءوصلحاءکا توذکر ہی کیا ہے۔ الوہیت خالص اللہ پاک کے لیے ثابت ہے اور مقربین میں سے کسی کے لیے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ جب تم نے یہ سمجھ لیا تو غور کرو کہ یہ الوہیت وہ ہے جس کو اللہ پاک نے خاص اپنی ہی ذات مقدسہ کے لیے ثابت کیا ہے اور اپنے ہرغیر حتیٰ کہ محمدوجبرئیل علیہما السلام تک سے اس کی نفی کی ہے، ان کے لیے ایک رائی کے دانہ برابر بھی الوہیت کا کوئی حصہ حاصل نہیں۔ پس حقیقی محبت الٰہی کا یہی مقام ہے جو لوگ اللہ کی الوہیت میں اس کی عبادت کے کاموں میں اولیاءصلحاءیاابنیاءوملائکہ کوشریک کرتے ہیں۔ ویظنون اللہ جعل نحوا من الخلق منزلۃ یرضی ان العامی یلتجئی الیہم ویرجوہم ویخالفہم ویستغیث بہم ویستعین منہم بقضاءحوائجہ واسعاف مرامہ وانجاح مقامہ ویجعلہم وسائط بینہ وبین اللہ تعالیٰ ہی الشرک الجلی الذی لایغفراللہ تعالیٰ ابدا ( حوالہ مذکور ) اور گمان کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے خاص بندوں کو ایسا مقام دے رکھا ہے کہ عوام ان کی طرف پناہ ڈھونڈیں، ان سے اپنی مرادیں مانگیں، ان سے استعانت کریں اور قضائے حاجات کے لیے ان کو اللہ کے درمیان وسیلہ ٹھہرادیں۔ یہ وہ شرک جلی ہے جس کو اللہ پاک ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا۔ ان اللہ لایغفران یشرک بہ ویغفرمادون ذلک لمن یشاء ( النساء: 48 ) یعنی بے شک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا۔ “ رسول ” کی محبت سے ان کی اطاعت وفرمانبرداری مراد ہے اس کے بغیرمحبت رسول کا دعویٰ غلط ہے۔ نیز محبت رسول کا تقاضا ہے کہ آپ کا ہرفرمان بلندوبالا تسلیم کیاجائے۔ اور ا س کے مقابلہ پر کسی کا کوئی حکم نہ مانا جائے۔ پس جو لوگ صحیح احادیث مرفوعہ کی موجودگی میں اپنے مزعومہ اماموں کے اقوال کو مقدم رکھتے ہیں اور اللہ کے رسول کے فرمان کوٹھکرادیتے ہیں ان کے متعلق سیدالعلامہ حضرت نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تامل فی مقلدۃ المذاہب کیف اقروا علی انفسہم بتقلیدالاموات من العلماءوالاولیاءواعترفوا بان فہم الکتاب والسنۃ کان خاصا لہم واستدلوا لاشراکہم فی الصلحاءبعبارات القوم ومکاشفات الشیوخ فی النوم ورجحوا کلام الامۃ والائمۃ علی کلام اللہ تعالیٰ و رسولہ علی بصیرۃ منہم وعلی علم فماندری ماعذرہم عن ذلک غدا یوم الحساب والکتاب ومایحمیہم من ذلک العذاب والعقاب۔ ( الدین الخاص،ج: 1ص: 196 ) یعنی مذاہب معلومہ کے مقلدین میں غور کرو کہ علماءواولیاءجو دنیا سے رخصت ہوچکے، ان کی تقلید میں کس طور پر گرفتار ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث کا سمجھنا ان ہی اماموں پر ختم ہوچکا، یہ خاص ان ہی کاکام تھا۔ صلحاءکو عبادت الٰہی میں شریک کرنے کے لیے عبارات قوم سے کتربیونت کرکے دلیل پکڑتے ہیں اور شیوخ کے مکاشفات سے جو ان کے خوابوں سے متعلق ہوتے ہیں اور امت اور ائمہ کے کلام کو اللہ و رسول کے کلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ روش صحیح نہیں ہے۔ ہم نہیں جان سکتے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے یہ لوگ کیاعذر بیان کریں گے اور اس دن کے عذاب سے ان کو کون چیز نجات دلاسکے گی۔ الغرض اللہ ورسول کی محبت کا تقاضا یہی ہے جو اوپر بیان ہوا ورنہ صادق آئے گا۔ تعصی الرسول و انت تظہر حبہ ہذا لعمری فی القیاس بدیع لو کان حبک صادقا لاطعتہ ان المحب لمن یحب مطیع اس حدیث نبوی میں دوسری خصلت بھی بہت ہی اہم بیان کی گئی ہے کہ مومن کامل وہ ہے جس کی لوگوں سے محبت خاص اللہ کے لیے ہو اور دشمنی بھی خالص اللہ کے لیے ہو۔ نفسانی اغراض کا شائبہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بابت مروی ہے کہ ایک کافر نے جس کی چھاتی پر آپ چڑھے ہوئے تھے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ تو آپ فوراً ہٹ کر اس کے قتل سے رک گئے اور یہ فرمایا کہ اب میرا یہ قتل کرنا اللہ کے لیے نہ ہوتا۔ بلکہ اس کے تھوکنے کی وجہ سے یہ اپنے نفس کے لیے ہوتا اور مؤمن صادق کا یہ شیوہ نہیں کہ اپنے نفس کے لیے کسی سے عداوت یامحبت رکھے۔ تیسری خصلت میں اسلام وایمان پر استقامت مراد ہے۔ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں ایک سچا مومن دولت ایمان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بلاشک جس میں یہ تینوں خصلتیں جمع ہوں گی اس نے درحقیقت ایمان کی لذت حاصل کی پھر وہ کسی حال میں بھی ایمان سے محرومی پسند نہ کرے گا اور مرتدہونے کے لیے کبھی بھی تیار نہ ہوسکے گا۔ خواہ وہ شہید کردیا جائے، اسلامی تاریخ کی ماضی وحال میں ایسی بہت ہی مثالیں موجود ہیں کہ بہت سے مخلص بندگان مسلمین نے جام شہادت پی لیا مگرارتداد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اللہ پاک ہر مسلمان مرد وعورت کے اندرایسی ہی استقامت پیدا فرمائے۔آمین ابونعیم نے مستخرج میں حسن بن سفیان عن محمد بن المثنیٰ کی روایت سے ویکرہ ان یعود فی الکفر کے آگے بعداذانقذہ اللہ کے الفاظ زیادہ کئے ہیں۔خودامام بخاری قدس سرہ نے بھی دوسری سند سے ان لفظوں کا اضافہ نقل فرمایا ہے۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ان لفظوں کا ترجمہ یہ کہ وہ کفرمیں واپس جانا مکروہ سمجھے اس کے بعد کہ اللہ پاک نے اسے اس سے نکالا۔ مراد وہ لوگ ہیں جو پہلے کافرتھے بعد میں اللہ نے اس کو ایمان واسلام نصیب فرمایا۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہذا الاسناد کلہ بصریون یعنی اس سند میں سب کے سب بصری راوی واقع ہوئے ہیں۔ ایک اشکال اور ا س کا جواب: حدیث مذکورمیں ان یکون اللہ ورسولہ احب الیہ مماسواہما فرمایا گیا ہے۔ جس میں ضمیر تثنیہ “ ھما ” میں اللہ اور رسول ہر دو کو جمع کردیا گیا ہے۔ یہ جمع کرنا اس حدیث سے ٹکراتا ہے جس میں ذکر ہے کہ کسی خطیب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک خطبہ بایں الفاظ دیا تھا من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اظہارخفگی کے لیے فرمایا: بئس الخطیب انت یعنی تم اچھے خطیب نہیں ہو۔ آپ کی یہ خفگی یہاں ضمیر ( ھما ) پر تھی جب کہ خطیب نے “ یعصہما ” کہہ دیا تھا۔اہل علم نے اس اشکال کے کئی جواب دئیے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تعلیم اور خطبہ کے مواقع الگ الگ ہیں۔ حدیث ہذا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور معلم اختصار وجامعیت کے پیش نظر یہاں “ ہما ” ضمیراستعمال فرمائی اور خطیب نے خطبہ کے موقع پر جب کہ تفصیل و تطویل کا موقع تھا۔ اختصار کے لیے “ ہما ” ضمیر استعمال کی جو بہتر نہ تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خفگی فرمائی۔ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ حدیث مذکور میں مقام محبت میں ہردو کو جمع کیا گیا ہے جو بالکل درست ہے کیونکہ اللہ ورسول کی محبت لازم وملزوم، ہردو کی محبت جمع ہوگئی تونجات ہوگئی اور ایمان کا مدار ہردو کی محبت پر ہے اور خطیب مذکور نے معصیت کے معاملہ میں دونوں کوجمع کر دیا تھا جس سے وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ ہردو کی معصیت نقصان کا باعث ہے اور اگرکسی نے ایک کی اطاعت کی اور ایک کی نافرمانی تو یہ موجب نقصان نہیں حالانکہ ایسا خیال بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ اللہ کی اطاعت نہ کرنا بھی گمراہی اور رسول کی نافرمانی بھی گمراہی، اس لیے وہاں الگ الگ بیان ضروری تھا، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ تم کو خطبہ دینا نہیں آتا۔ امام طحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں یوں لکھا ہے کہ خطیب مذکور نے لفظ “ ومن یعصہما ” پر سکتہ کر دیا تھا اور ٹھہر کربعد میں کہا “ فقدغوی ” اس سے ترجمہ یہ ہوگیا تھا کہ جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تونیک ہے اور جونافرمانی کرے وہ بھی، اس طرزادا سے بڑی بھاری غلطی کاامکان تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطیب کو تنبیہ فرمائی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ حدیث مذکورہ میں “ مماسواہما ” کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ “ ممن سواہما ” نہیں فرمایاگیا، اس لیے کہ الفاظ سابقہ میں بطورعموم اہل عقل اور غیراہل عقل یعنی انسان حیوان، جانور، نباتات، جمادات سب داخل ہیں۔ “ ممن سواہما ” کہنے میں خاص اہل عقل مراد ہوتے، اس لیے “ سواہما ” کے الفاظ استعمال کئے گئے اور اس میں اس پر بھی دلیل ہے کہ اس تنبیہ کے استعمال میں کوئی برائی نہیں۔ حدیث مذکورہ میں اس امر پر بھی اشارہ ہے کہ نیکیوں سے آراستہ ہونا اور برائیوں سے دور رہنا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔