‌صحيح البخاري - حدیث 1594

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ كِسْوَةِ الكَعْبَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ جِئْتُ إِلَى شَيْبَةَ ح و حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ وَاصِلٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ جَلَسْتُ مَعَ شَيْبَةَ عَلَى الْكُرْسِيِّ فِي الْكَعْبَةِ فَقَالَ لَقَدْ جَلَسَ هَذَا الْمَجْلِسَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أَدَعَ فِيهَا صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ إِلَّا قَسَمْتُهُ قُلْتُ إِنَّ صَاحِبَيْكَ لَمْ يَفْعَلَا قَالَ هُمَا الْمَرْءَانِ أَقْتَدِي بِهِمَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1594

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: کعبہ پر غلاف چڑھانا ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے واصل احدب نے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کی خدمت میں حاضر ہوا ( دوسری سند ) اور ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے واصل سے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے ( ایک مرتبہ ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سوناچاندی ہے اسے نہ چھوڑوں ( جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا ) بلکہ سب کو نکال کر ( مسلمانوں میں ) تقسیم کردوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کررہا ہوں ( اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا )
تشریح : قال الاسما عیلی لیس فی حدیث الباب لکسوۃ الکعبۃ ذکر یعنی فلا یطابق الترجمۃ وقال ابن بطال معنی الترجمۃ صحیح ووجہہا انہ معلوم ان الملوک فی کل زمان کانوا یتفاخرون بکسوۃ الکعبۃ برفیع الثیاب المنسوجۃ بالذہب وغیرہ کما یتفاخرون بتسبیل الاموال لہا فاراد البخاری ان عمر لمارای قسمۃ الذہب والفضۃ صوابا کان حکم الکسوۃ حکم المال تجوز قسمتہابل مافضل من کسوتہا اولیٰ بالقسمۃ وقال ابن المنیر فی الحاشیۃ یحتمل ان مقصودہ التنبیہ علی ان کسوۃ الکعبۃ مشروع والحجۃ فیہ انہا لم تزل تقصد بالمال یوضع فیہا علی معنی الزینۃ اعظاما لہا فالکسوۃ من ہذا القبیل۔ ( فتح الباری ) تشریح : بیت اللہ شریف پر غلاف ڈالنے کا رواج بہت قدیم زمانہ سے ہے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے کعبہ مقدس کو غلاف پہنایا وہ حمیر کا بادشاہ اسعد ابوکرب ہے۔ یہ شخص جب مکہ شریف آیا تو نہایت بردیمانی سے غلاف تیار کراکر ہمراہ لایا اور بھی مختلف اقسام کی سوتی وریشمی چادروں کے پردے ساتھ تھے۔ قریش جب خانہ کعبہ کے متولی ہوئے تو عام چندہ سے ان کا نیا غلاف سالانہ تیار کراکر کعبہ شریف کو پہنانے کا دستور ہوگیا۔ یہاں تک کہ ابوربیعہ بن مغیرہ مخزومی کا زمانہ آیا جو قریش میں بہت ہی سخی اور صاحب ثروت تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ ایک سال چندے سے غلاف تیار کیا جائے اور ایک سال میں اکیلا اس کے جملہ اخراجات برداشت کیا کروں گا۔ اسی بناپر اس کا نام عدل قریش پڑگیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ نبیلہ بنت حرام نے قبل از اسلام ایک غلاف چڑھایا تھا جس کی صورت یہ ہوئی کہ نو عمر بچہ یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بھائی خوار نامی گم ہوگیاتھا۔ اور انہوں نے منت مانی کہ میرا بچہ مل گیا تو کعبہ پر غلاف چڑھاؤں گی۔ چنانچہ ملنے پر انہوں نے اپنی منت پوری کی۔ 8ھ میں مکہ دار الاسلام بن گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی چادر کا غلاف ڈالا۔ آپ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کی پیروی کی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب مصر فتح ہوگیا تو آپ نے قباطی مصری کا جو کہ بیش قیمت کپڑا ہے بیت اللہ پر غلاف چڑھایا اور سالانہ اس کا اہتمام فرمایا۔ آپ پچھلے سال کا غلاف حاجیوں پر تقسیم فرمادیا کرتے اور نیا غلاف چڑھا دیا کرتے تھے۔ شروع میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی عمل رہا۔ ایک دفعہ آپ نے غلاف کعبہ کا کپڑا کسی حائضہ عورت کو پہنے ہوئے دیکھا تو تقسیم کی عادت بدل دی اور قدیم غلاف دفن کیا جانے لگا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ یہ اضاعت مال ہے، اس لیے بہتر ہے کہ پرانا پردہ فروخت کردیا جائے۔ چنانچہ اس کی قیمت غریبوں میں تقسیم ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ بنو شیبہ بلاشرکت غیرے اس کے مالک بن گئے۔ اکثر سلاطین اسلام کعبہ شریف پر غلاف ڈالنے کو اپنا فخر سمجھتے رہے اور قسم قسم کے قیمتی غلاف سالانہ چڑھاتے رہے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک غلاف دیباکا 10 محرم کو اور دوسراقباطی کا 29 رمضان کو چڑھا دیا گیاتھا۔ خلیفہ مامون رشید نے اپنے عہد خلافت میں بجائے ایک کے تین غلاف بھیجے۔ جن میں ایک مصری پارچہ کا تھا۔ اور دوسرا سفید دیباکا اور تیسرا سرخ دیبا کا تھا تاکہ پہلا یکم رجب کو اور دوسرا 27 رمضان کو اور تیسرا آٹھویں ذی الحجہ کو بیت اللہ پر چڑھایا جائے۔ خلفائے عباسیہ کو اس کا بہت زیادہ اہتمام تھا اور سیاہ کپڑا ان کا شعار تھا۔ اس لیے اکثر سیاہ ریشم ہی کا غلاف کعبہ کے لیے تیار ہوتا تھا۔ سلاطین کے علاوہ دیگر امراءواہل ثروت بھی اس خدمت میں حصہ لیتے تھے اور ہر شخص چاہتا تھا کہ میرا غلاف تادیر ملبوس رہے۔ اس لیے اوپر نیچے بہت سے غلاف بیت اللہ پر جمع ہوگئے۔ 160ھ میں سلطان مہدی عباسی جب حج کے لیے آئے تو خدام کعبہ نے کہا کہ بیت اللہ پر اتنے غلاف جمع ہوگئے ہیں کہ بنیادوں کو ان کے بوجھ کا تحمل دشوار ہے۔ سلطان نے حکم دے دیا کہ تمام غلاف اتار دئیے جائیں اور آئندہ ایک سے زیادہ غلاف نہ چڑھایا جائے۔ عباسی حکومت جب ختم ہوگئی تو 659 ھ میں شاہ یمن ملک مظفراس سے خدمت کو انجام دیا۔ اس کے بعد مدت تک خالص یمن سے غلاف آتا رہا اور کبھی شاہان مصر کی شرکت میں مشترکہ۔ خلافت عباسیہ کے بعد شاہان مصر میں سب سے پہلے اس خدمت کا فخر ملک ظاہر بیبرس کو نصیب ہوا۔ پھرشاہان مصر نے مستقل طورپر اس کے اوقاف کردئیے اور غلاف کعبہ سالانہ مصر سے آنے لگا۔ 751 ھ میں ملک مجاہد نے چاہا کہ مصری غلاف اتار دیا جائے اور میرے نام کا غلاف چڑھایا جائے مگر شریف مکہ کے ذریعہ جب یہ خبر شاہ مصر کو پہنچی تو ملک مجاہد گرفتار کرلیا گیا۔ کعبہ شریف کو بیرونی غلاف پہنانے کا دستور تو زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے مگر اندرونی غلاف کے متعلق تقی الدین فارسی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ملک ناصر حسن چرکسی نے 761 ھ میں کعبہ کا اندرونی غلاف روانہ کیا تھا۔ جو تخمیناً 817 ھ تک کعبے کے اندر دیواروں پر لٹکارہا۔ اس کے بعد ملک الاشرف ابونصر سیف الدین سلطان مصر نے 825 ھ میں سرخ رنگ کا اندرونی غلاف کعبے کے لیے روانہ کیا۔ آج کل یہ غلاف خود حکومت سعودیہ عربیہ خلدہا اللہ تعالیٰ کے زیر اہتمام تیار کرایا جاتا ہے۔ قال الاسما عیلی لیس فی حدیث الباب لکسوۃ الکعبۃ ذکر یعنی فلا یطابق الترجمۃ وقال ابن بطال معنی الترجمۃ صحیح ووجہہا انہ معلوم ان الملوک فی کل زمان کانوا یتفاخرون بکسوۃ الکعبۃ برفیع الثیاب المنسوجۃ بالذہب وغیرہ کما یتفاخرون بتسبیل الاموال لہا فاراد البخاری ان عمر لمارای قسمۃ الذہب والفضۃ صوابا کان حکم الکسوۃ حکم المال تجوز قسمتہابل مافضل من کسوتہا اولیٰ بالقسمۃ وقال ابن المنیر فی الحاشیۃ یحتمل ان مقصودہ التنبیہ علی ان کسوۃ الکعبۃ مشروع والحجۃ فیہ انہا لم تزل تقصد بالمال یوضع فیہا علی معنی الزینۃ اعظاما لہا فالکسوۃ من ہذا القبیل۔ ( فتح الباری ) تشریح : بیت اللہ شریف پر غلاف ڈالنے کا رواج بہت قدیم زمانہ سے ہے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے کعبہ مقدس کو غلاف پہنایا وہ حمیر کا بادشاہ اسعد ابوکرب ہے۔ یہ شخص جب مکہ شریف آیا تو نہایت بردیمانی سے غلاف تیار کراکر ہمراہ لایا اور بھی مختلف اقسام کی سوتی وریشمی چادروں کے پردے ساتھ تھے۔ قریش جب خانہ کعبہ کے متولی ہوئے تو عام چندہ سے ان کا نیا غلاف سالانہ تیار کراکر کعبہ شریف کو پہنانے کا دستور ہوگیا۔ یہاں تک کہ ابوربیعہ بن مغیرہ مخزومی کا زمانہ آیا جو قریش میں بہت ہی سخی اور صاحب ثروت تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ ایک سال چندے سے غلاف تیار کیا جائے اور ایک سال میں اکیلا اس کے جملہ اخراجات برداشت کیا کروں گا۔ اسی بناپر اس کا نام عدل قریش پڑگیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ نبیلہ بنت حرام نے قبل از اسلام ایک غلاف چڑھایا تھا جس کی صورت یہ ہوئی کہ نو عمر بچہ یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بھائی خوار نامی گم ہوگیاتھا۔ اور انہوں نے منت مانی کہ میرا بچہ مل گیا تو کعبہ پر غلاف چڑھاؤں گی۔ چنانچہ ملنے پر انہوں نے اپنی منت پوری کی۔ 8ھ میں مکہ دار الاسلام بن گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی چادر کا غلاف ڈالا۔ آپ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کی پیروی کی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب مصر فتح ہوگیا تو آپ نے قباطی مصری کا جو کہ بیش قیمت کپڑا ہے بیت اللہ پر غلاف چڑھایا اور سالانہ اس کا اہتمام فرمایا۔ آپ پچھلے سال کا غلاف حاجیوں پر تقسیم فرمادیا کرتے اور نیا غلاف چڑھا دیا کرتے تھے۔ شروع میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی عمل رہا۔ ایک دفعہ آپ نے غلاف کعبہ کا کپڑا کسی حائضہ عورت کو پہنے ہوئے دیکھا تو تقسیم کی عادت بدل دی اور قدیم غلاف دفن کیا جانے لگا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ یہ اضاعت مال ہے، اس لیے بہتر ہے کہ پرانا پردہ فروخت کردیا جائے۔ چنانچہ اس کی قیمت غریبوں میں تقسیم ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ بنو شیبہ بلاشرکت غیرے اس کے مالک بن گئے۔ اکثر سلاطین اسلام کعبہ شریف پر غلاف ڈالنے کو اپنا فخر سمجھتے رہے اور قسم قسم کے قیمتی غلاف سالانہ چڑھاتے رہے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک غلاف دیباکا 10 محرم کو اور دوسراقباطی کا 29 رمضان کو چڑھا دیا گیاتھا۔ خلیفہ مامون رشید نے اپنے عہد خلافت میں بجائے ایک کے تین غلاف بھیجے۔ جن میں ایک مصری پارچہ کا تھا۔ اور دوسرا سفید دیباکا اور تیسرا سرخ دیبا کا تھا تاکہ پہلا یکم رجب کو اور دوسرا 27 رمضان کو اور تیسرا آٹھویں ذی الحجہ کو بیت اللہ پر چڑھایا جائے۔ خلفائے عباسیہ کو اس کا بہت زیادہ اہتمام تھا اور سیاہ کپڑا ان کا شعار تھا۔ اس لیے اکثر سیاہ ریشم ہی کا غلاف کعبہ کے لیے تیار ہوتا تھا۔ سلاطین کے علاوہ دیگر امراءواہل ثروت بھی اس خدمت میں حصہ لیتے تھے اور ہر شخص چاہتا تھا کہ میرا غلاف تادیر ملبوس رہے۔ اس لیے اوپر نیچے بہت سے غلاف بیت اللہ پر جمع ہوگئے۔ 160ھ میں سلطان مہدی عباسی جب حج کے لیے آئے تو خدام کعبہ نے کہا کہ بیت اللہ پر اتنے غلاف جمع ہوگئے ہیں کہ بنیادوں کو ان کے بوجھ کا تحمل دشوار ہے۔ سلطان نے حکم دے دیا کہ تمام غلاف اتار دئیے جائیں اور آئندہ ایک سے زیادہ غلاف نہ چڑھایا جائے۔ عباسی حکومت جب ختم ہوگئی تو 659 ھ میں شاہ یمن ملک مظفراس سے خدمت کو انجام دیا۔ اس کے بعد مدت تک خالص یمن سے غلاف آتا رہا اور کبھی شاہان مصر کی شرکت میں مشترکہ۔ خلافت عباسیہ کے بعد شاہان مصر میں سب سے پہلے اس خدمت کا فخر ملک ظاہر بیبرس کو نصیب ہوا۔ پھرشاہان مصر نے مستقل طورپر اس کے اوقاف کردئیے اور غلاف کعبہ سالانہ مصر سے آنے لگا۔ 751 ھ میں ملک مجاہد نے چاہا کہ مصری غلاف اتار دیا جائے اور میرے نام کا غلاف چڑھایا جائے مگر شریف مکہ کے ذریعہ جب یہ خبر شاہ مصر کو پہنچی تو ملک مجاہد گرفتار کرلیا گیا۔ کعبہ شریف کو بیرونی غلاف پہنانے کا دستور تو زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے مگر اندرونی غلاف کے متعلق تقی الدین فارسی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ملک ناصر حسن چرکسی نے 761 ھ میں کعبہ کا اندرونی غلاف روانہ کیا تھا۔ جو تخمیناً 817 ھ تک کعبے کے اندر دیواروں پر لٹکارہا۔ اس کے بعد ملک الاشرف ابونصر سیف الدین سلطان مصر نے 825 ھ میں سرخ رنگ کا اندرونی غلاف کعبے کے لیے روانہ کیا۔ آج کل یہ غلاف خود حکومت سعودیہ عربیہ خلدہا اللہ تعالیٰ کے زیر اہتمام تیار کرایا جاتا ہے۔