كِتَابُ الحَجِّ بَابُ تَوْرِيثِ دُورِ مَكَّةَ، وَبَيْعِهَا وَشِرَائِهَا، وَأَنَّ النَّاسَ فِي المَسْجِدِ الحَرَامِ سَوَاءٌ خَاصَّةً صحيح حَدَّثَنَا أَصْبَغُ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ تَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ فَقَالَ وَهَلْ تَرَكَ عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَكَانُوا يَتَأَوَّلُونَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ الْآيَةَ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: مکہ شریف کے گھر مکان میراث۔۔۔
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبردی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین نے، انہیں عمرو بن عثمان نے اور انہیں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مکہ میں کیا اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ عقیل نے ہمارے لیے محلہ یا مکان چھوڑا ہی کب ہے۔ ( سب بیچ کھوچ کر برابر کردئیے ) عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث ہوئے تھے۔ جعفر اور علی رضی اللہ عنہما کو وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا، کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے اور عقیل رضی اللہ عنہ ( ابتداءمیں ) اور طالب اسلام نہیں لائے تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب نے کہا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دلیل لیتے ہیں کہ ” جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی، وہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ “
تشریح :
مجاہد سے منقول ہے کہ مکہ تمام مباح ہے نہ وہاں کے گھروں کا بیچنا درست ہے نہ کرایہ پر دینا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور جمہور علماءکے نزدیک مکہ کے گھر مکان ملک ہیں اور مالک کے مرجانے کے بعد وہ وارثوں کے ملک ہوجاتے ہیں۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ ( شاگرد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کا بھی یہ قول ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ ہاں خاص مسجد حرام میں سب مسلمانوں کا حق برابر ہے جو جہاں بیٹھ گیا اس کو وہاں سے کوئی اٹھا نہیں سکتا۔ اوپر کی آیت میں چونکہ عاکف اور معکوف کا مادہ ایک ہی ہے۔ اس لیے معکوف کی بھی تفسیر بیان کردی۔
حدیث باب میں عقیل کا ذکر ہے۔ سو ابو طالب کے چار بیٹے تھے۔ عقیل، طالب، جعفر اور علی۔ علی اور جعفر نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ مدینہ آگئے مگر عقیل مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے ابوطالب کی ساری جائیداد کے وہ وارث ہوئے۔ انہوں نے اسے بیچ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا ذکر فرمایا تھا جو یہاں مذکور ہے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں عقیل مسلمان ہوگئے تھے۔ داؤدی نے کہا جو کوئی ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا جاتا اس کا عزیز جو مکہ میں رہتا وہ ساری جائداد دبالیتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ابوطالب کے یہ مکانات عرصہ دراز بعد محمد بن یوسف، حجاج ظالم کے بھائی نے ایک لاکھ دینار میں خریدلیے تھے۔ اصل میں یہ جائداد ہاشم کی تھی، ان سے عبدالمطلب کو ملی۔ انہوں نے سب بیٹوں کو تقسیم کردی۔ اسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ بھی تھا۔
آیت مذکورئہ باب شروع اسلام میں مدینہ منورہ میں اتری تھی۔ اللہ پاک نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا وارث بنا دیا تھا۔ بعد میں یہ آیت اتری واولو الارحام بعضہم اولیٰ ببعض ( الانفال: 75 ) یعنی غیر آدمیوں کی نسبت رشتہ دار میراث کے زیادہ حقدار ہیں۔ خیر اس آیت سے مومنوں کا ایک دوسرے کا وارث ہونا نکلتا ہے۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ مومن کافر کا وارث نہ ہوگا اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا جو اس کے بعد ہے۔ والذین امنوا ولم یہاجروا ( الانفال: 72 ) یعنی جو لوگ ایمان بھی لے آئے مگر کافروں کے ملک سے ہجرت نہیں کی تو تم ان کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جب ان کے وارث نہ ہوئے تو کافروں کے بطریق اولیٰ وارث نہ ہوں گے۔ ( وحیدی )
مجاہد سے منقول ہے کہ مکہ تمام مباح ہے نہ وہاں کے گھروں کا بیچنا درست ہے نہ کرایہ پر دینا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور جمہور علماءکے نزدیک مکہ کے گھر مکان ملک ہیں اور مالک کے مرجانے کے بعد وہ وارثوں کے ملک ہوجاتے ہیں۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ ( شاگرد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کا بھی یہ قول ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ ہاں خاص مسجد حرام میں سب مسلمانوں کا حق برابر ہے جو جہاں بیٹھ گیا اس کو وہاں سے کوئی اٹھا نہیں سکتا۔ اوپر کی آیت میں چونکہ عاکف اور معکوف کا مادہ ایک ہی ہے۔ اس لیے معکوف کی بھی تفسیر بیان کردی۔
حدیث باب میں عقیل کا ذکر ہے۔ سو ابو طالب کے چار بیٹے تھے۔ عقیل، طالب، جعفر اور علی۔ علی اور جعفر نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ مدینہ آگئے مگر عقیل مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے ابوطالب کی ساری جائیداد کے وہ وارث ہوئے۔ انہوں نے اسے بیچ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا ذکر فرمایا تھا جو یہاں مذکور ہے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں عقیل مسلمان ہوگئے تھے۔ داؤدی نے کہا جو کوئی ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا جاتا اس کا عزیز جو مکہ میں رہتا وہ ساری جائداد دبالیتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ابوطالب کے یہ مکانات عرصہ دراز بعد محمد بن یوسف، حجاج ظالم کے بھائی نے ایک لاکھ دینار میں خریدلیے تھے۔ اصل میں یہ جائداد ہاشم کی تھی، ان سے عبدالمطلب کو ملی۔ انہوں نے سب بیٹوں کو تقسیم کردی۔ اسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ بھی تھا۔
آیت مذکورئہ باب شروع اسلام میں مدینہ منورہ میں اتری تھی۔ اللہ پاک نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا وارث بنا دیا تھا۔ بعد میں یہ آیت اتری واولو الارحام بعضہم اولیٰ ببعض ( الانفال: 75 ) یعنی غیر آدمیوں کی نسبت رشتہ دار میراث کے زیادہ حقدار ہیں۔ خیر اس آیت سے مومنوں کا ایک دوسرے کا وارث ہونا نکلتا ہے۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ مومن کافر کا وارث نہ ہوگا اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا جو اس کے بعد ہے۔ والذین امنوا ولم یہاجروا ( الانفال: 72 ) یعنی جو لوگ ایمان بھی لے آئے مگر کافروں کے ملک سے ہجرت نہیں کی تو تم ان کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جب ان کے وارث نہ ہوئے تو کافروں کے بطریق اولیٰ وارث نہ ہوں گے۔ ( وحیدی )