‌صحيح البخاري - حدیث 1586

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا صحيح حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا يَزِيدُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا يَا عَائِشَةُ لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ لَأَمَرْتُ بِالْبَيْتِ فَهُدِمَ فَأَدْخَلْتُ فِيهِ مَا أُخْرِجَ مِنْهُ وَأَلْزَقْتُهُ بِالْأَرْضِ وَجَعَلْتُ لَهُ بَابَيْنِ بَابًا شَرْقِيًّا وَبَابًا غَرْبِيًّا فَبَلَغْتُ بِهِ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ فَذَلِكَ الَّذِي حَمَلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى هَدْمِهِ قَالَ يَزِيدُ وَشَهِدْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ حِينَ هَدَمَهُ وَبَنَاهُ وَأَدْخَلَ فِيهِ مِنْ الْحِجْرِ وَقَدْ رَأَيْتُ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ حِجَارَةً كَأَسْنِمَةِ الْإِبِلِ قَالَ جَرِيرٌ فَقُلْتُ لَهُ أَيْنَ مَوْضِعُهُ قَالَ أُرِيكَهُ الْآنَ فَدَخَلْتُ مَعَهُ الْحِجْرَ فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ فَقَالَ هَا هُنَا قَالَ جَرِيرٌ فَحَزَرْتُ مِنْ الْحِجْرِ سِتَّةَ أَذْرُعٍ أَوْ نَحْوَهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1586

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہاروں نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ رضی اللہ عنہ ! اگر تیری قوم کازمانہ جاہلیت ابھی تازنہ ہوتا، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ ( نئی تعمیر میں ) اس حصہ کو بھی داخل کردوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کردوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں۔ اس طرح ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہوجاتی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اند رکردیاتھا۔ میں نے ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے۔ جریربن حاز م نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا، ان کی جگہ کہاں ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہوگی یا ایسی ہی کچھ۔
تشریح : معلوم ہو ا کہ حطیم کی زمین کعبہ میں شریک نہ تھی۔ کیونکہ پرنالے سے لے کر حطیم کی دیوار تک سترہ ہاتھ جگہ ہے اور ایک اتہائی ہاتھ دیوار کا عرض دو ہاتھ اور تہائی ہے۔ باقی پندرہ ہاتھ حطیم کے اندر ہے۔ بعض کہتے ہیںکل حطیم کی زمین کعبہ میں شریک تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں امتیاز کے لئے حطیم کے گرد ایک چھوٹی سی دیوار اٹھادی ( وحیدی ) جس مقدس جگہ پرآج خانہ کعبہ کی عمارت ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں فرشتوں نے پہلے پہل عبادت الہٰی کے لئے مسجد تعمیر کی۔ قرآن مجید میں ہے۔ اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُّضِعَ لِلنَاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبرَکاَّوَّ ہُدَّی لِلعٰلَمِینِ ( آل عمران: 96 ) یعنی اللہ کی عبادت کے لئے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے برکت والا گھر جو سب سے پہلے دنیا کے اند رتعمیر ہوا وہ مکہ شریف ولا گھر ہے۔ ابن ابی شیبہ، اسحاق بن راہویہ، عبدبن حمید، حرث بن ابی اسامہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بہقی نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ان رجلاقال لہ الا تخبرنی عن البیت اہواول بیت وضع فی الارض قال لا ولکنہ اول بیت وضع للناس فیہ البرکۃ والہدیٰ ومقام ابراہیم ومن دخلہ کان امنا ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آیا وہ سب سے پہلا مکان ہے جو روئے زمین پر بنایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ متبرک مقامات میں سب سے پہلا مکان ہے جو لوگوں کے لئے تعمیر ہوا اس میں برکت اور ہدایت ہے اور مقام ابراہیم ہے جوشخص وہاں داخل ہوجائے اس کو امن مل جاتاہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا! عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر، حضرت عطاءسے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا۔ قال آدم ای رب مالی لا اسمع اصوات الملئکۃ قال لخطیئتک ولکن اھبط الی الارض فابن لی بیتا ثم احفف بہ کما رایت الملائکۃ تحف بیتی الذی فی السماءفزعم الناس انہ بناہ خمسۃ اجبل من حراءولبنان وطور زیتاوطورسینا والجودی فکان ہذا بنا آدم حتی بناہ ابراہیم بعد ( ترجمہ ) حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی، پرور دگار کیا بات ہے کہ مجھے فرشتوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ ارشاد الٰہی ہوا یہ تمہاری اس لغزش کا سبب ہے جو شجر ممنوعہ کے استعمال کے باعث تم سے ہوگئی۔ لیکن ایک صورت ابھی باقی ہے کہ تم زمین پر اترو اور ہمارے لئے ایک مکان تیار کرو اور اس کو گھیرے رہو جس طرح تم نے فرشتوں کو دیکھاہے کہ وہ ہمارے مکان کو جو آسمان پر ہے گھیرے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا حکم کی بنا پر حضرت آدم علیہ السلام نے کوہ حرا، لبنان، طور زیتا، طور سینا اور جودی ایسے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی، یہاں تک کہ اس کے آثار مٹ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے بعد از سر نو اس کو تعمیر کیا۔ابن جریر، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے حضر ت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : لما اھبط اللہ آدم من الجنۃ قال انی مہبط معک بیتا یطاف حولہ کما یطاف حول عرشی ویصلی عندہ کما یصلی عند عرشی فلما کان زمن الطوفان رفعہ اللہ الیہ فکانت الانبیاءیحجونہ ولا یعلمون مکانہ حتی تولاہ اللہ بعد لا براہیم واعلمہ مکانہ فبناہ من خمسۃ اجبل حراءولبنان، وثبیروجبل االطور و جبل الحمر وہو جبل بیت المقدس۔ ( ترجمہ ) اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پراتارا تو ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھی اتاروں گا۔ جس کا طواف اسی طرح کیا جاتا ہے جیساکہ میرے عرش کا طواف ہوتا ہے اور اس کے پاس نماز اسی طرح ادا کی جائے گی جس طرح کہ میرے عرش کے پاس ادا کی جاتی ہے۔ پھر طوفان نوح کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اٹھالیا۔ اس کے بعد انبیاءعلیہم السلام بیت اللہ شریف کا حج تو کیاکرتے تھے مگر اس کا مقام کسی کو معلوم نہ تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا پتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا اور اس کی جگہ دکھادی تو آپ نے اس کو پانچ پہاڑوں سے بنایا۔ کوہ حرا، لبنان ثبیر، جبل الحمر، جبل طور ( جبل الحمر کو جبل بیت المقدس بھی کہتے ہیں ) ازرقی اور ابن منذر نے حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی تو ان کو مکہ مکرمہ جانے کاارشاد ہوا۔جب وہ چلنے لگے تو زمین اور بڑے بڑے میدان لپیٹ کرمختصر کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ ایک ایک میدان جہاں سے وہ گزرتے تھے ایک قدم کے برابر ہوگیا اور زمین میں جہا ں کہیں سمندر یا تالاب تھے ان کے دہانے ایک ایک بستی ہوجاتی اور اس میں عجیب برکت نظر آتی۔ شدہ شدہ آپ مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ مکہ شریف آنے سے پیشتر آدم علیہ السلام کی آہ و زاری اور آپ کا رنج وغم جنت سے چلے آنے کی وجہ سے بہت تھا، یہاں تک کہ فرشتے بھی آپ کے گریہ کی وجہ سے گریہ کرتے وار آپ کے رنج میں شریک ہوتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا غم غلط کرنے کے لے جنت کا ایک خیمہ عنایت فرمایا تھا جو مکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے مقام پر نصب کیا گیاتھا۔ یہ وقت وہ تھا کہ ابھی کعبۃ اللہ کو کعبہ کا لقب نہیں دیا گیاتھا۔ اسی دن کعبۃ اللہ کے ساتھ رکن بھی نازل ہوا۔ اس دن وہ سفید یا قوت اور جنت کا ٹکڑا تھا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام مکہ شریف آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی اور اس خیمہ کی حفاظت فرشتوں کے ذریعہ کرائی۔ یہ خیمہ آپ کے آخر وقت تک وہیں لگارہا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض فرمائی تو اس خیمہ کو اپنی طرف اٹھالیا اور آدم علیہ السلام کے صاحبزادوں نے اس کے بعد اس خیمہ کے مقام پر مٹی اور پتھر کا ایک مکان بنایا۔ جو ہمیشہ آباد رہا۔ آدم علیہ السلام کے صاحبزادے اور ان کے بعد والی نسلیں یکے بعد دیگر ے اس کی آبادی کا انتظام کرتی رہیںجب نوح علیہ السلام کا زمانہ آیا تو وہ عمارت غرق ہوگئی اور اس کا نشا ن چھپ گیا۔ حضرت ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام کے سوا تمام انبیاءعلیم السلام نے بیت اللہ شریف کی زیارت کی ہے ابن اسحاق اور بیہقی نے حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا مامن نبی الاوقد حج البیت الاماکان من ہود و صالح ولقدحجہ نوح فلما کا ن فی الارض ما کان من الغرق اصاب البیت ما اصاب الارض وکان البیت ربوۃ حمرآءفبعث اللہ عزوجل ہودافتشا غل بامرقومہ حتی قبضہ اللہ الیہ فلم یحجہ حتی مات فلما بواہ اللہ لا براہیم علیہ السلام حجہ ثم لم یبق نبی بعد الا حجہ ( ترجمہ ) جس قدر انبیاءعلیہم السلام مبعوث ہوئے سب ہی نے بیت اللہ شریف کا حج ادافرمایا مگر حضرت ہود اور حضرت صالح علیہ السلام کو اس کا موقع نہ ملا۔حضرت نوح علیہ السلام نے بھی حج ادا فرمایاہے لیکن جب آپ کے زمانہ میں زمین پر طوفان آیا اور ساری زمین غرقاب ہوئی تو بیت اللہ شریف کو بھی اس سے حصہ ملا۔ بیت اللہ شریف ایک سرخ رنگ کا ٹیلہ رہ گیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو آپ حکم الٰہی کے مطابق فریضہ تبلیغ کی ادئیگی میں مشغول رہے اور آپ کی مشغولیت اس درجہ رہی کہ آپ کو آخردم تک حج کرنے کی نوبت نہ آئی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ شریف ببانے کا موقع ملا تو انہوں نے حج ادا فرمایا آپ کے بعد جس قدر انبیاءعلیہم السلام تشریف لائے سب نے حج ادا فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا! طبقات ابن سعد میں حضرت ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوحی اللہ عزوجل الی ابراہیم یامرہ بالمسیر الی بلدہ الحرام فرکب ابراہیم البراق وجعل اسمعیل امامہ وہا ابن سنتین وہاجر خلفہ ومعہ جبرئیل یدلہ علی موضع البیت حتی قدم بہ مکۃ فانزل اسمعیل وامہ الی جانب البیت ثم انصرف ابراہیم الی الشام ثم اوحی اللہ الی ابراہیم ان تبنی البیت وہویومئذ ابن مائۃ سنۃواسمعیل یؤمئذابن ثلاثین سنۃ فبناہ معہ وتوفی اسمعیل بعد ابیہ فد فن داخل الحجر مما یلی۔ یعنی اللہ عزوجل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم بھیجا کہ بلدالحرام مکہ شریف کی طرف چلیں۔ چنانچہ آپ بہ تعمیل حکم الٰہی براق پر سوار ہوگئے۔ اپنے پیارے نور نظر حضرت اسماعیل کوجن کی عمر شریف ہنوز دوسال کی تھی اپنے سامنے اور بی بی ہاجرہ کو اپنے پیچھے لے لیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بیت اللہ شریف کامقام بتلانے کی غرض سے آپ کے ساتھ تھے۔ جب مکہ مرمکرمہ تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کو بیت اللہ کے ایک جانب میں اتارا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام شام کو واپس ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ آپ کی عمر شریف کامل ایک سو سال تھی، بذریعہ وحی بیت اللہ شریف کے بنانے کا حکم فرمایا۔ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر مبارک تیس سال کی تھی۔ چنانچہ اپنے صاحبزادے کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیاد ڈالی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی آپ کے بعد وفات پائی تو حجر اسود اور کعبہ شریف کے درمیان اپنی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ دفن ہوئے اور آپ کے صاحبزادے حضرت ثابت بن اسماعیل اپنے والد محترم کے بعد اپنے ماموؤں کے ساتھ مل کر جو بنی جرہم سے تھے کعبہ شریف کے متولی قرار پائے۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن حاتم اور بہقی کی روایت کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبۃ اللہ شریف بنانے کا حکم ہواتو آپ کو معلوم نہ ہوسکا کہ اس کو کس طرح بنائیں۔ اس نوبت پر اللہ پاک نے سکینہ یعنی ایک ہوا بھیجی جس کے دو کنارے تھے۔ اس نے بیت اللہ شریف کے مقام پر طوق کی طرح ایک حلقہ باندھ دیا۔ ادھر آپ کو حکم ہوچکا تھا کہ سکینہ جہاں ٹھہرے بس وہیں تعمیر ہونی چاہئے۔ چنانچہ حضرت ابراہم علیہ السلام نے اس مقام پر بیت اللہ شریف کو تعمیر فرمایا۔ دیلمی نے حضرت علی رضی اللہ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔زیر تفسیر آیت وَاِذ یَرفَعُ اِبرَہِیمُ القَوَاعِدَ ( البقرۃ: 127 ) کہ بیت اللہ شریف جس طرح مربع ہے اسی طرح ایک چوکونی ابرنمودار ہوا اس سے آواز آتی تھی کہ بیت اللہ کا ارتفاع ایسا ہی چوکونا ہونا چاہئے جیسا میںیعنی ابر چوکونا ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کو اسی کے مطابق مربع بنا یا۔ سعید بن منصور اور عبد بن حمید، ابن ابی حاتم وغیرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہوا کہ ڈالے ہوئے نشان کے نیچے کھودنا شرو ع کیا۔ پس بیت اللہ شریف کے ستون برآمد ہوگئے۔ جس کو تیس تیس آدمی بھی ہلا نہیں سکتے تھے۔ آیت بالا کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں القواعد التی کانت قوعد البیت قبل ذلک ستون جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا، یہ وہی ستون ہیں جو بیت اللہ شریف میں پہلے کے بنے ہوئے تھے۔ ان ہی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلند کیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ شریف اگرچہ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہ السلام کا تعمیر فرمودہ ہے لیکن اس کا سنگ بنیاد ان حضرات کا رکھا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد قدیم ہے آپ نے صرف اس کی تجدید فرمائی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کعبہ فرمارہے تھے۔ تو یہ دعائیں آپ کی زبان پر تھیں۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم اے رب! ہماری اس خدمت توحید کو قبول فرمائیے۔ تو جاننے والا سننے والا ہے۔ رَبَّنَاوَاجعلنَا مُسلِمَینِ لَکَ وَ مِن ذُرّیِتِنَآ اُمَّۃً مُّسلِمَمۃًلَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُب عَلَینَا اِنَّکَ اَنتَ التَّوبُ الرَّحِیمُ ( البقرۃ: 128 ) اے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت ہمیشہ اس مشن کو زندہ رکھنے والی بنا دے او مناسک حج سے ہمیں آگاہ کردے اور ہمارے اوپر اپنی عنایات کی نظر کردے تو نہایت ہی تواب اور رحیم ہے۔ رَبِّ اجعَل ہٰذَاالبَلَدَ اٰمناً وَّاجُنُبنِی وَبَنِیَّ اَن نَّعبُدَ الاَصنَامَ ( سورہ ابراہیم : 135 ) اے رب! اس شہر کو امن و امان والا مقام بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو ہمیشہ بت پرستی کی حماقت سے بچاتا رہیو۔ ”رَبَّنَا اِنِّی اَسکَنتُ مِن ذِرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیرِذِی زَرعٍ عِندَبَیتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلٰوۃَ ) ( ابراہیم: 37 ) اے رب!میں اپنی اولاد کو ایک بنجرنا قابل کاشت بیابان میں تیرے پاک گھر کے قریب آباد کرتا ہوں۔ اے رب! میری غرض ان کو یہاں بسانے سے صرف یہ ہے کہ یہ تیری عبادت کریں۔ نماز قائم کریں۔ میرے مولا! لوگوں کے دل ان کی طرف پھیردے اور ان کو میووں سے روزی عطا کرنا کہ یہ تیری شکر گزاری کریں۔ قال ابن عباس بنی ابراہیم البیت من خمسۃ اجبل من طور سینا وطور زیتا ولبنان جبل بالشام والجودی جبل بالجزیرۃ وبنی قواعدہ من حراءجبل بمکۃ فلما انتہی ابراہیم الی موضع الحجر الاسود قال الاسماعیل ائتنی بحجرحسن یکون للناس علما فا تاہ بحجرفقال ائتنی باحسن منہ فمضی اسماعیل لیطلب حجرا احسن منہ فصاح ابوقبیس یا ابراہیم ان لک عندی ودیعۃ فخذ ہا فقذف بالحجرالاسود فاخذہ ابراہیم فوضعہ مکانہ ( خازن، ج 1 ص : 94 ) یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے طور سینا وطور زیتا جبل لبنان جو شام میں ہے اور جبل جودی جو جزیرہ میں ہیں ان چاروں پہاڑوں کے پتھروں کا استعمال کیا۔ جب آپ حجر اسود کے مقام تک پہنچ گئے، تو آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ ایک خوبصورت سا پتھر لاؤ جس کو نشانی کے طور پر ( طوافوں کی گنتی کے لئے ) میں قائم کردوں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک پتھر لائے، اس کو آپ نے واپس کردیا اور فرمایا اور مناسب پتھر تلاش کر کے لاؤ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر تلاش کررہی رہے تھے۔ کہ جبل ابو قبیس سے ایک غیبی صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! میرے پاس آپ کو دینے کی ایک امانت ہے، اسے لیجائیے۔ چنانچہ اس پہاڑ نے حجراسود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے کردیا اور آپ نے اس پتھر کو اس کے مقام پر نصب کردیا۔ بعض روایات میں یو ں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حجر اسود کو لاکر آپ کے حوالہ کیا۔ ( ابن کثیر ) اور شرقی گوشہ میں باہر کی طرف زمین سے ڈیڑھ گز کی بلندی پر ایک طاق میں اس کو نصب کیا گیا۔ تعمیر ابراہیمی بالکل سادہ تھی نہ اس پر چھت تھی نہ دروازہ نہ چونہ۔ مٹی سے کام لیا گیا تھا۔ صرف پتھر کی چاردیواری تھی علامہ ازرقی نے تاریخ مکہ میںتعمیر ابراہیمی کا عرض وطول حسب ذیل لکھا ہے۔ بلندی زمین سے چھت تک 9 گز۔ طول حجر اسود سے رکن شامی تک 32 گز۔ عرض رکن شامی سے غربی تک 22 گز۔ گھر بن چکا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مناسک حج سے آگاہ کردیا۔ اب ارشاد باری ہوا وَّطَہِّر بَیتِیَ لِلطَّآ ئِفِینَ وَالقَآئِمِینَ والرُکَّعِ السُّجُو دِ وَ اَذِّن فِی النَّاسِ بالحَجِّ یَاتُوکَ رِجَالاً وَّعَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍیاتِین مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ الحج : 27 ) یعنی ہمارا گھر طوار کرنے والوں، نماز میں قیام کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک کردے اور تمام لوگوں کو پکاردے کہ حج کو آئیں پیدل بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی ہر دور دراز گوشہ سے آئیں گے۔ اس زمانہ میں اعلان واشتہار کے لے وسائل نہیں تھے۔ویران جگہ تھی، آدم زاد کا کوسوں تک پتہ نہ تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کی آواز حدود حرم سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ لیکن اس معمولی آواز کو قدرت حق تعالیٰ نے مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک اور زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ مفسرین آیت بالا کے ذیل میں لکھتے ہیں۔فنا دی علی جبل ابو قبیس یا ایہا الناس ان ربکم بنی بیتا واو جب علیکم الحج الیہ فاجیبوا ربکم والتفت بوجہہ یمینا وشمالا شرقا وغربا فاجابہ کل من کتب لہ ان یحج من اصلاب الرجال وارحام الامہات لبیک اللہم لبیک ( جلالین ) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر پکارا اے لوگو! تمہارے رب نے اپنی عبادت کے لئے ایک مکان بنوایا اور تم پر اس کا حج فرض کردیا ہے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب، مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔ پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جا چکی ہے۔ انہو ں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیک اللہم لبیک یا اللہ! ہم حاضر ہیں، یااللہ ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لئے حاضرہیں۔ بنائے ابراہیمی کے بعد! ابراہیم علیہ السلام کی یہ تعمیر ایک مدت تک قائم رہی اور اس کی تولیت ونگرانی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد پر اس کا حج فرض کردیاہے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب،مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔ پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جاچکی ہے۔ انھوں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیک اللہم لبیک یا اللہ! ہم حاضر ہیں، یا اللہ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لیے حاضر ہیں۔ تعمیرقصی بن کلاب! براہیمی تعمیرکے بعد خانہ کعبہ کو چوتھی مرتبہ قصی بن کلاب قریشی نے تعمیر کیا۔ قصی قریش کے ممتاز افراد میں سے تھے تعمیر کعبہ کے ساتھ ساتھ قومی تعمیر کے لئے بھی اس نے بڑے بڑے اہم کام انجام دیئے۔ تمام قریش کو جمع کر کے بذریعہ تقاریر ان میں اتحاد کی روح پھونکی۔ دار لندوہ کا بانی بھی یہی شحض ہے جس میں قریش اپنے قومی اجتماعات ومذہبی تقریبات نکاح وغیرہ کے لئے جمع ہوا کرتے تھے۔ سقایہ ( حاجیوں کو آب زمزم پلانا ) اور رفادہ ( یعنی حاجیوں کے کھانے پینے کاانتظام کرنا ) یہ محکمے اسی نے قائم کئے قریش کے قومی فنڈے سے ایک سالانہ رقم منیٰ اور مکہ معظمہ میں لنگر خانوں کے لے مقرر کی۔ اس کے ساتھ چرمی حوض بنوائے جن میں حجاج کے لئے ایام حج میں پانی بھر وا دیاجاتا تھا۔ قصی نے اپنے سارے خاندان قریش کو مجتمع کر کے کعبہ شریف کے آس پاس بسایا۔ خدمت کعبہ کے متعلق متعدد کمیٹیاں قائم کیں جن کو مختلف خدمات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ خانہ کعبہ کی چھت پر گوگل کی لکڑی کی چھت بنا کر اطراف میں درختوں کی باڑی لگادی اور اس پر سیاہ غلاف ڈالا۔ یہ تعمیر حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ طفولیت تک باقی تھی آپ نے اپنے بچپن میں اس کو ملاحظہ فرمایا۔ تعمیرقریش! یہ تعمیر نبوت محمدی سے پانچ سال قبل جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 35 سال کی تھی،ہوئی۔ اس تعمیر میں اور بنائے ابراہیمی میں1675 سال کا زمانہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک عورت نزد کعبہ بخور جلا رہی تھی، پردہ شریف میں آگ لگ گئی اور پھیل گئی یہاں تک کہ کعبہ شریف کی چھت بھی جل گئی اور پتھر بھی چٹخ گئے۔ جگہ جگہ سے دیواریں شق ہوگئیں۔ کچھ ہی دنو ںبعد سیلاب آیا۔ جس نے اس کی بنیادوں کو ہلا دیا کہ گرجانے کا خطرہ قوی ہوگیا۔ قریش نے اس تعمیر کے لئے چندہ جمع کیا۔ مگر شرط یہ رکھی کہ سود، اجرت زنا، غارت گری اور چوری کا پیسہ نہ لگایا جائے اس لیے خرچ میں کمی ہوگئی۔جس کا تدارک یہ کیا گیا کہ شمالی رخ سے سات ذراع زمین باہر چھوڑ کر عمارت بنادی۔ اس متروکہ حصہ کا نام حطیم ہے۔ آیت شریفہ وَاِذا یَرفَعُ اِبرَا ہِیمُ القَوَاعِدَ البقرۃ: 127 ) کی تفسیرین میں ابن کثیر میں تفصیلات یو آئی ہیں۔ قال محمد ابن اسحاق بن یسار فی السیرۃ ولما بلغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس وثلاثین سنۃ اجتعمت قریش لبنیان الکعبۃوکانوا یہمون بذلک یسقفوہا ویہابون ہدمہا وانما کانت رضما فوق القامۃ فاراد وارفعہا وتسقیفہا و ذالک ان نفرا سر قوا کنزالکعبۃ وانما کان الکنز جوف الکعبۃ وکان الذی وجدعندہ الکنز دویک مولی بنی ملیح بن عمرو من خزاعۃ فقطعت قریش یدہ ویزعم الناس ان الذین سرقو ہ وضعوہ عند دویک وکان البحر قد رمی بسفینہ الی جدۃ لرجل من تجار الروم فتحطت فاخذو اخشبہا فاعدوہ لتسقیفہا وکان بمکۃرجل قبطی نجار فہیا لہم فی انفسہم بعض ما یصلحہا و کانت حیۃ تخرج من بئر الکعبۃ التی کانت تطرح فیہا مایہدی لہا کل یوم فتشرف علی جدار الکعبۃ و کان مما یہابون وذالک انہ کان لا یدنو منہا احد الارجزالت وکشت وفتحت فاہا فکانوایہا بونہا فبنیا ہی یوما تشرف علی جدار الکعبۃ کما کانت تصنع بعث اللہ الیہا طائر اِفا ختطفہا فذہب بہا فقالت قریش انا نرجوا ان یکون اللہ قد رضی ما اردنا عند نا عامل رفیق وعندنا خشب وقد کفانا اللہ الحیۃ فلما اجمعو ا امرہم فی ہدمہا وبنیانھا قام ابن وہب بن عمرو فتناول من الکعبۃ حجرا فوثب من یدہ حتی رجع الی موضعہ فقال یا معشر قریش لا تدخلوا فی بنیا نہا من کسبکم الا طیبا لا یدخل فیہا مہر بغی ولا بیع ربا ولا ظلمۃ احد من الناس الی اخرہ۔ خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 35 سال کی تھی کہ قریش نے کعبہ کی از سر نو تعمیر کا فیصلہ اور اس کی دیواروں کو بلند کر کے چھت ڈالنے کی تجویز پاس کی۔ کچھ دنوں کے بعد اور حادثات کے ساتھ ساتھ کعبہ شریف میں چوری کا حادثہ بھی ہوچکا تھا۔ اتفاق سے چور پکڑا گیا، اس کا ہاتھ کاٹا گیا اور تعمیری پروگرام میں مزید پختگی ہوگئی۔ حسن اتفاق سے ہ باقوم نامی ایک رومی تاجر کی کشتی طوفانی موجوں سے ٹکراتی ہوئی جدہ کے کنارے آپڑی اور لکڑی کا سامان ارزاں مل جانے کی اہل مکہ کو تو قع ہوئی۔ ولید بن مغیرہ لکڑی خرید نے کے خیال سے جدہ آیا اور سامان تعمیر کے ساتھ ہی باقوم کو جوفن معماری میں استاد تھا اپنے ساتھ لے گیا۔ ان ہی ایام میں کعبہ شریف کی دیواروں میں ایک خطرناک اژدہا پایا گیا۔ جس کو مارنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی تھی۔ اتفاقاوہ ایک دن دیوار کعبہ پر بیٹھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا پرندہ بھیجا جو اس کو آن کی آن میں اچک کر لے گیا۔ اب قریش نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیت ہمارے ساتھ ہے اس لئے تعمیر کا کام فوراً شروع کردینا چاہئے۔ مگر کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ چھت پر چڑھے اور بیت اللہ کو منہدم کرے ۔ آخر جرات کرکے ابن وہب آگے بڑھا اور ایک پتھر جدا کیا تو وہ پتھر ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اپنی جگہ پر جاٹھہرا۔ اس وقت ابن وہب نے اعلان کیا کہ ناجائز کمائی کا پیسہ ہر گز ہر گز تعمیر میں نہ لگایا جائے۔ پھر ولید بن مغیرہ نے کدال لے کر یہ کہتے ہوئے کہ اے اللہ! تو جانتا ہے ہماری نیت بخیر ہے اس کا ہدم شروع کردیا بنیاد نکل آئی تو اس کے مختلف حصوں کی تعمیر مختلف قبائل پرتقسیم کردی گئی اور کام شروع ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک کار تھے اور کندھوں پتھر رکھ کر لاتے تھے۔ جب حجر اسود رکھنے کا وقت آیا تو قبائل میں اختلاف پڑگیا۔ ہر خاندان اس شرف کے حصول کا دعویدار تھا۔ آخر مرنے مارنے تک نوبت پہنچ گئی، مگرولید بن مغیرہ نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح کو جو شخص بھی سب سے پہلے حرم شریف میں قدم رکھے، اس کے فیصلے کو واجب العمل سمجھوچنانچہ صبح کو سب سے پہلے حرم شریف میں آنے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ سب نے بیک زبان آپ کے فیصلے کو بخوشی ماننے کااعتراف کیا۔ آپ نے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک کے وسط میں رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک سردار کو اس چادر کے اٹھانے میں شریک کرلیا۔ جب وہ چادر گوشہ کعبہ تک پہنچ گئی تو آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر دیوار میں نصب فرمادیا۔ دیواریں اٹھا رہ ہاتھ اونچی کردی گئیں۔ اندرونی فرش بھی پتھر کا بنایا۔ اپنی امتیازی شان قائم رکھنے کے لئے دروازہ قد آدم اونچا رکھا۔ اندرون بیت اللہ شمالاً و جنوباً تین تین ستون قائم کئے۔ جن پر شہتیر ڈال کر چھت پاٹ دی اور رکن عراقی کی طرف اندر ہی اندر زینہ چڑھا یا کہ چھت پر پہنچ سکیں اور شمالی سمت پر پر نالہ لگایا تاکہ چھت کا بارشی پانی حجر میں آکر پڑے۔ معلوم ہو ا کہ حطیم کی زمین کعبہ میں شریک نہ تھی۔ کیونکہ پرنالے سے لے کر حطیم کی دیوار تک سترہ ہاتھ جگہ ہے اور ایک اتہائی ہاتھ دیوار کا عرض دو ہاتھ اور تہائی ہے۔ باقی پندرہ ہاتھ حطیم کے اندر ہے۔ بعض کہتے ہیںکل حطیم کی زمین کعبہ میں شریک تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں امتیاز کے لئے حطیم کے گرد ایک چھوٹی سی دیوار اٹھادی ( وحیدی ) جس مقدس جگہ پرآج خانہ کعبہ کی عمارت ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں فرشتوں نے پہلے پہل عبادت الہٰی کے لئے مسجد تعمیر کی۔ قرآن مجید میں ہے۔ اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُّضِعَ لِلنَاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبرَکاَّوَّ ہُدَّی لِلعٰلَمِینِ ( آل عمران: 96 ) یعنی اللہ کی عبادت کے لئے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے برکت والا گھر جو سب سے پہلے دنیا کے اند رتعمیر ہوا وہ مکہ شریف ولا گھر ہے۔ ابن ابی شیبہ، اسحاق بن راہویہ، عبدبن حمید، حرث بن ابی اسامہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بہقی نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ان رجلاقال لہ الا تخبرنی عن البیت اہواول بیت وضع فی الارض قال لا ولکنہ اول بیت وضع للناس فیہ البرکۃ والہدیٰ ومقام ابراہیم ومن دخلہ کان امنا ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آیا وہ سب سے پہلا مکان ہے جو روئے زمین پر بنایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ متبرک مقامات میں سب سے پہلا مکان ہے جو لوگوں کے لئے تعمیر ہوا اس میں برکت اور ہدایت ہے اور مقام ابراہیم ہے جوشخص وہاں داخل ہوجائے اس کو امن مل جاتاہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا! عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر، حضرت عطاءسے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا۔ قال آدم ای رب مالی لا اسمع اصوات الملئکۃ قال لخطیئتک ولکن اھبط الی الارض فابن لی بیتا ثم احفف بہ کما رایت الملائکۃ تحف بیتی الذی فی السماءفزعم الناس انہ بناہ خمسۃ اجبل من حراءولبنان وطور زیتاوطورسینا والجودی فکان ہذا بنا آدم حتی بناہ ابراہیم بعد ( ترجمہ ) حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی، پرور دگار کیا بات ہے کہ مجھے فرشتوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ ارشاد الٰہی ہوا یہ تمہاری اس لغزش کا سبب ہے جو شجر ممنوعہ کے استعمال کے باعث تم سے ہوگئی۔ لیکن ایک صورت ابھی باقی ہے کہ تم زمین پر اترو اور ہمارے لئے ایک مکان تیار کرو اور اس کو گھیرے رہو جس طرح تم نے فرشتوں کو دیکھاہے کہ وہ ہمارے مکان کو جو آسمان پر ہے گھیرے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا حکم کی بنا پر حضرت آدم علیہ السلام نے کوہ حرا، لبنان، طور زیتا، طور سینا اور جودی ایسے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی، یہاں تک کہ اس کے آثار مٹ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے بعد از سر نو اس کو تعمیر کیا۔ابن جریر، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے حضر ت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : لما اھبط اللہ آدم من الجنۃ قال انی مہبط معک بیتا یطاف حولہ کما یطاف حول عرشی ویصلی عندہ کما یصلی عند عرشی فلما کان زمن الطوفان رفعہ اللہ الیہ فکانت الانبیاءیحجونہ ولا یعلمون مکانہ حتی تولاہ اللہ بعد لا براہیم واعلمہ مکانہ فبناہ من خمسۃ اجبل حراءولبنان، وثبیروجبل االطور و جبل الحمر وہو جبل بیت المقدس۔ ( ترجمہ ) اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پراتارا تو ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھی اتاروں گا۔ جس کا طواف اسی طرح کیا جاتا ہے جیساکہ میرے عرش کا طواف ہوتا ہے اور اس کے پاس نماز اسی طرح ادا کی جائے گی جس طرح کہ میرے عرش کے پاس ادا کی جاتی ہے۔ پھر طوفان نوح کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اٹھالیا۔ اس کے بعد انبیاءعلیہم السلام بیت اللہ شریف کا حج تو کیاکرتے تھے مگر اس کا مقام کسی کو معلوم نہ تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا پتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا اور اس کی جگہ دکھادی تو آپ نے اس کو پانچ پہاڑوں سے بنایا۔ کوہ حرا، لبنان ثبیر، جبل الحمر، جبل طور ( جبل الحمر کو جبل بیت المقدس بھی کہتے ہیں ) ازرقی اور ابن منذر نے حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی تو ان کو مکہ مکرمہ جانے کاارشاد ہوا۔جب وہ چلنے لگے تو زمین اور بڑے بڑے میدان لپیٹ کرمختصر کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ ایک ایک میدان جہاں سے وہ گزرتے تھے ایک قدم کے برابر ہوگیا اور زمین میں جہا ں کہیں سمندر یا تالاب تھے ان کے دہانے ایک ایک بستی ہوجاتی اور اس میں عجیب برکت نظر آتی۔ شدہ شدہ آپ مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ مکہ شریف آنے سے پیشتر آدم علیہ السلام کی آہ و زاری اور آپ کا رنج وغم جنت سے چلے آنے کی وجہ سے بہت تھا، یہاں تک کہ فرشتے بھی آپ کے گریہ کی وجہ سے گریہ کرتے وار آپ کے رنج میں شریک ہوتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا غم غلط کرنے کے لے جنت کا ایک خیمہ عنایت فرمایا تھا جو مکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے مقام پر نصب کیا گیاتھا۔ یہ وقت وہ تھا کہ ابھی کعبۃ اللہ کو کعبہ کا لقب نہیں دیا گیاتھا۔ اسی دن کعبۃ اللہ کے ساتھ رکن بھی نازل ہوا۔ اس دن وہ سفید یا قوت اور جنت کا ٹکڑا تھا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام مکہ شریف آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی اور اس خیمہ کی حفاظت فرشتوں کے ذریعہ کرائی۔ یہ خیمہ آپ کے آخر وقت تک وہیں لگارہا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض فرمائی تو اس خیمہ کو اپنی طرف اٹھالیا اور آدم علیہ السلام کے صاحبزادوں نے اس کے بعد اس خیمہ کے مقام پر مٹی اور پتھر کا ایک مکان بنایا۔ جو ہمیشہ آباد رہا۔ آدم علیہ السلام کے صاحبزادے اور ان کے بعد والی نسلیں یکے بعد دیگر ے اس کی آبادی کا انتظام کرتی رہیںجب نوح علیہ السلام کا زمانہ آیا تو وہ عمارت غرق ہوگئی اور اس کا نشا ن چھپ گیا۔ حضرت ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام کے سوا تمام انبیاءعلیم السلام نے بیت اللہ شریف کی زیارت کی ہے ابن اسحاق اور بیہقی نے حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا مامن نبی الاوقد حج البیت الاماکان من ہود و صالح ولقدحجہ نوح فلما کا ن فی الارض ما کان من الغرق اصاب البیت ما اصاب الارض وکان البیت ربوۃ حمرآءفبعث اللہ عزوجل ہودافتشا غل بامرقومہ حتی قبضہ اللہ الیہ فلم یحجہ حتی مات فلما بواہ اللہ لا براہیم علیہ السلام حجہ ثم لم یبق نبی بعد الا حجہ ( ترجمہ ) جس قدر انبیاءعلیہم السلام مبعوث ہوئے سب ہی نے بیت اللہ شریف کا حج ادافرمایا مگر حضرت ہود اور حضرت صالح علیہ السلام کو اس کا موقع نہ ملا۔حضرت نوح علیہ السلام نے بھی حج ادا فرمایاہے لیکن جب آپ کے زمانہ میں زمین پر طوفان آیا اور ساری زمین غرقاب ہوئی تو بیت اللہ شریف کو بھی اس سے حصہ ملا۔ بیت اللہ شریف ایک سرخ رنگ کا ٹیلہ رہ گیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو آپ حکم الٰہی کے مطابق فریضہ تبلیغ کی ادئیگی میں مشغول رہے اور آپ کی مشغولیت اس درجہ رہی کہ آپ کو آخردم تک حج کرنے کی نوبت نہ آئی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ شریف ببانے کا موقع ملا تو انہوں نے حج ادا فرمایا آپ کے بعد جس قدر انبیاءعلیہم السلام تشریف لائے سب نے حج ادا فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا! طبقات ابن سعد میں حضرت ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوحی اللہ عزوجل الی ابراہیم یامرہ بالمسیر الی بلدہ الحرام فرکب ابراہیم البراق وجعل اسمعیل امامہ وہا ابن سنتین وہاجر خلفہ ومعہ جبرئیل یدلہ علی موضع البیت حتی قدم بہ مکۃ فانزل اسمعیل وامہ الی جانب البیت ثم انصرف ابراہیم الی الشام ثم اوحی اللہ الی ابراہیم ان تبنی البیت وہویومئذ ابن مائۃ سنۃواسمعیل یؤمئذابن ثلاثین سنۃ فبناہ معہ وتوفی اسمعیل بعد ابیہ فد فن داخل الحجر مما یلی۔ یعنی اللہ عزوجل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم بھیجا کہ بلدالحرام مکہ شریف کی طرف چلیں۔ چنانچہ آپ بہ تعمیل حکم الٰہی براق پر سوار ہوگئے۔ اپنے پیارے نور نظر حضرت اسماعیل کوجن کی عمر شریف ہنوز دوسال کی تھی اپنے سامنے اور بی بی ہاجرہ کو اپنے پیچھے لے لیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بیت اللہ شریف کامقام بتلانے کی غرض سے آپ کے ساتھ تھے۔ جب مکہ مرمکرمہ تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کو بیت اللہ کے ایک جانب میں اتارا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام شام کو واپس ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ آپ کی عمر شریف کامل ایک سو سال تھی، بذریعہ وحی بیت اللہ شریف کے بنانے کا حکم فرمایا۔ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر مبارک تیس سال کی تھی۔ چنانچہ اپنے صاحبزادے کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیاد ڈالی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی آپ کے بعد وفات پائی تو حجر اسود اور کعبہ شریف کے درمیان اپنی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ دفن ہوئے اور آپ کے صاحبزادے حضرت ثابت بن اسماعیل اپنے والد محترم کے بعد اپنے ماموؤں کے ساتھ مل کر جو بنی جرہم سے تھے کعبہ شریف کے متولی قرار پائے۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن حاتم اور بہقی کی روایت کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبۃ اللہ شریف بنانے کا حکم ہواتو آپ کو معلوم نہ ہوسکا کہ اس کو کس طرح بنائیں۔ اس نوبت پر اللہ پاک نے سکینہ یعنی ایک ہوا بھیجی جس کے دو کنارے تھے۔ اس نے بیت اللہ شریف کے مقام پر طوق کی طرح ایک حلقہ باندھ دیا۔ ادھر آپ کو حکم ہوچکا تھا کہ سکینہ جہاں ٹھہرے بس وہیں تعمیر ہونی چاہئے۔ چنانچہ حضرت ابراہم علیہ السلام نے اس مقام پر بیت اللہ شریف کو تعمیر فرمایا۔ دیلمی نے حضرت علی رضی اللہ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔زیر تفسیر آیت وَاِذ یَرفَعُ اِبرَہِیمُ القَوَاعِدَ ( البقرۃ: 127 ) کہ بیت اللہ شریف جس طرح مربع ہے اسی طرح ایک چوکونی ابرنمودار ہوا اس سے آواز آتی تھی کہ بیت اللہ کا ارتفاع ایسا ہی چوکونا ہونا چاہئے جیسا میںیعنی ابر چوکونا ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کو اسی کے مطابق مربع بنا یا۔ سعید بن منصور اور عبد بن حمید، ابن ابی حاتم وغیرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہوا کہ ڈالے ہوئے نشان کے نیچے کھودنا شرو ع کیا۔ پس بیت اللہ شریف کے ستون برآمد ہوگئے۔ جس کو تیس تیس آدمی بھی ہلا نہیں سکتے تھے۔ آیت بالا کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں القواعد التی کانت قوعد البیت قبل ذلک ستون جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا، یہ وہی ستون ہیں جو بیت اللہ شریف میں پہلے کے بنے ہوئے تھے۔ ان ہی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلند کیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ شریف اگرچہ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہ السلام کا تعمیر فرمودہ ہے لیکن اس کا سنگ بنیاد ان حضرات کا رکھا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد قدیم ہے آپ نے صرف اس کی تجدید فرمائی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کعبہ فرمارہے تھے۔ تو یہ دعائیں آپ کی زبان پر تھیں۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم اے رب! ہماری اس خدمت توحید کو قبول فرمائیے۔ تو جاننے والا سننے والا ہے۔ رَبَّنَاوَاجعلنَا مُسلِمَینِ لَکَ وَ مِن ذُرّیِتِنَآ اُمَّۃً مُّسلِمَمۃًلَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُب عَلَینَا اِنَّکَ اَنتَ التَّوبُ الرَّحِیمُ ( البقرۃ: 128 ) اے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت ہمیشہ اس مشن کو زندہ رکھنے والی بنا دے او مناسک حج سے ہمیں آگاہ کردے اور ہمارے اوپر اپنی عنایات کی نظر کردے تو نہایت ہی تواب اور رحیم ہے۔ رَبِّ اجعَل ہٰذَاالبَلَدَ اٰمناً وَّاجُنُبنِی وَبَنِیَّ اَن نَّعبُدَ الاَصنَامَ ( سورہ ابراہیم : 135 ) اے رب! اس شہر کو امن و امان والا مقام بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو ہمیشہ بت پرستی کی حماقت سے بچاتا رہیو۔ ”رَبَّنَا اِنِّی اَسکَنتُ مِن ذِرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیرِذِی زَرعٍ عِندَبَیتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلٰوۃَ ) ( ابراہیم: 37 ) اے رب!میں اپنی اولاد کو ایک بنجرنا قابل کاشت بیابان میں تیرے پاک گھر کے قریب آباد کرتا ہوں۔ اے رب! میری غرض ان کو یہاں بسانے سے صرف یہ ہے کہ یہ تیری عبادت کریں۔ نماز قائم کریں۔ میرے مولا! لوگوں کے دل ان کی طرف پھیردے اور ان کو میووں سے روزی عطا کرنا کہ یہ تیری شکر گزاری کریں۔ قال ابن عباس بنی ابراہیم البیت من خمسۃ اجبل من طور سینا وطور زیتا ولبنان جبل بالشام والجودی جبل بالجزیرۃ وبنی قواعدہ من حراءجبل بمکۃ فلما انتہی ابراہیم الی موضع الحجر الاسود قال الاسماعیل ائتنی بحجرحسن یکون للناس علما فا تاہ بحجرفقال ائتنی باحسن منہ فمضی اسماعیل لیطلب حجرا احسن منہ فصاح ابوقبیس یا ابراہیم ان لک عندی ودیعۃ فخذ ہا فقذف بالحجرالاسود فاخذہ ابراہیم فوضعہ مکانہ ( خازن، ج 1 ص : 94 ) یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے طور سینا وطور زیتا جبل لبنان جو شام میں ہے اور جبل جودی جو جزیرہ میں ہیں ان چاروں پہاڑوں کے پتھروں کا استعمال کیا۔ جب آپ حجر اسود کے مقام تک پہنچ گئے، تو آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ ایک خوبصورت سا پتھر لاؤ جس کو نشانی کے طور پر ( طوافوں کی گنتی کے لئے ) میں قائم کردوں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک پتھر لائے، اس کو آپ نے واپس کردیا اور فرمایا اور مناسب پتھر تلاش کر کے لاؤ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر تلاش کررہی رہے تھے۔ کہ جبل ابو قبیس سے ایک غیبی صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! میرے پاس آپ کو دینے کی ایک امانت ہے، اسے لیجائیے۔ چنانچہ اس پہاڑ نے حجراسود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے کردیا اور آپ نے اس پتھر کو اس کے مقام پر نصب کردیا۔ بعض روایات میں یو ں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حجر اسود کو لاکر آپ کے حوالہ کیا۔ ( ابن کثیر ) اور شرقی گوشہ میں باہر کی طرف زمین سے ڈیڑھ گز کی بلندی پر ایک طاق میں اس کو نصب کیا گیا۔ تعمیر ابراہیمی بالکل سادہ تھی نہ اس پر چھت تھی نہ دروازہ نہ چونہ۔ مٹی سے کام لیا گیا تھا۔ صرف پتھر کی چاردیواری تھی علامہ ازرقی نے تاریخ مکہ میںتعمیر ابراہیمی کا عرض وطول حسب ذیل لکھا ہے۔ بلندی زمین سے چھت تک 9 گز۔ طول حجر اسود سے رکن شامی تک 32 گز۔ عرض رکن شامی سے غربی تک 22 گز۔ گھر بن چکا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مناسک حج سے آگاہ کردیا۔ اب ارشاد باری ہوا وَّطَہِّر بَیتِیَ لِلطَّآ ئِفِینَ وَالقَآئِمِینَ والرُکَّعِ السُّجُو دِ وَ اَذِّن فِی النَّاسِ بالحَجِّ یَاتُوکَ رِجَالاً وَّعَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍیاتِین مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ الحج : 27 ) یعنی ہمارا گھر طوار کرنے والوں، نماز میں قیام کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک کردے اور تمام لوگوں کو پکاردے کہ حج کو آئیں پیدل بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی ہر دور دراز گوشہ سے آئیں گے۔ اس زمانہ میں اعلان واشتہار کے لے وسائل نہیں تھے۔ویران جگہ تھی، آدم زاد کا کوسوں تک پتہ نہ تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کی آواز حدود حرم سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ لیکن اس معمولی آواز کو قدرت حق تعالیٰ نے مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک اور زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ مفسرین آیت بالا کے ذیل میں لکھتے ہیں۔فنا دی علی جبل ابو قبیس یا ایہا الناس ان ربکم بنی بیتا واو جب علیکم الحج الیہ فاجیبوا ربکم والتفت بوجہہ یمینا وشمالا شرقا وغربا فاجابہ کل من کتب لہ ان یحج من اصلاب الرجال وارحام الامہات لبیک اللہم لبیک ( جلالین ) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر پکارا اے لوگو! تمہارے رب نے اپنی عبادت کے لئے ایک مکان بنوایا اور تم پر اس کا حج فرض کردیا ہے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب، مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔ پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جا چکی ہے۔ انہو ں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیک اللہم لبیک یا اللہ! ہم حاضر ہیں، یااللہ ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لئے حاضرہیں۔ بنائے ابراہیمی کے بعد! ابراہیم علیہ السلام کی یہ تعمیر ایک مدت تک قائم رہی اور اس کی تولیت ونگرانی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد پر اس کا حج فرض کردیاہے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب،مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔ پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جاچکی ہے۔ انھوں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیک اللہم لبیک یا اللہ! ہم حاضر ہیں، یا اللہ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لیے حاضر ہیں۔ تعمیرقصی بن کلاب! براہیمی تعمیرکے بعد خانہ کعبہ کو چوتھی مرتبہ قصی بن کلاب قریشی نے تعمیر کیا۔ قصی قریش کے ممتاز افراد میں سے تھے تعمیر کعبہ کے ساتھ ساتھ قومی تعمیر کے لئے بھی اس نے بڑے بڑے اہم کام انجام دیئے۔ تمام قریش کو جمع کر کے بذریعہ تقاریر ان میں اتحاد کی روح پھونکی۔ دار لندوہ کا بانی بھی یہی شحض ہے جس میں قریش اپنے قومی اجتماعات ومذہبی تقریبات نکاح وغیرہ کے لئے جمع ہوا کرتے تھے۔ سقایہ ( حاجیوں کو آب زمزم پلانا ) اور رفادہ ( یعنی حاجیوں کے کھانے پینے کاانتظام کرنا ) یہ محکمے اسی نے قائم کئے قریش کے قومی فنڈے سے ایک سالانہ رقم منیٰ اور مکہ معظمہ میں لنگر خانوں کے لے مقرر کی۔ اس کے ساتھ چرمی حوض بنوائے جن میں حجاج کے لئے ایام حج میں پانی بھر وا دیاجاتا تھا۔ قصی نے اپنے سارے خاندان قریش کو مجتمع کر کے کعبہ شریف کے آس پاس بسایا۔ خدمت کعبہ کے متعلق متعدد کمیٹیاں قائم کیں جن کو مختلف خدمات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ خانہ کعبہ کی چھت پر گوگل کی لکڑی کی چھت بنا کر اطراف میں درختوں کی باڑی لگادی اور اس پر سیاہ غلاف ڈالا۔ یہ تعمیر حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ طفولیت تک باقی تھی آپ نے اپنے بچپن میں اس کو ملاحظہ فرمایا۔ تعمیرقریش! یہ تعمیر نبوت محمدی سے پانچ سال قبل جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 35 سال کی تھی،ہوئی۔ اس تعمیر میں اور بنائے ابراہیمی میں1675 سال کا زمانہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک عورت نزد کعبہ بخور جلا رہی تھی، پردہ شریف میں آگ لگ گئی اور پھیل گئی یہاں تک کہ کعبہ شریف کی چھت بھی جل گئی اور پتھر بھی چٹخ گئے۔ جگہ جگہ سے دیواریں شق ہوگئیں۔ کچھ ہی دنو ںبعد سیلاب آیا۔ جس نے اس کی بنیادوں کو ہلا دیا کہ گرجانے کا خطرہ قوی ہوگیا۔ قریش نے اس تعمیر کے لئے چندہ جمع کیا۔ مگر شرط یہ رکھی کہ سود، اجرت زنا، غارت گری اور چوری کا پیسہ نہ لگایا جائے اس لیے خرچ میں کمی ہوگئی۔جس کا تدارک یہ کیا گیا کہ شمالی رخ سے سات ذراع زمین باہر چھوڑ کر عمارت بنادی۔ اس متروکہ حصہ کا نام حطیم ہے۔ آیت شریفہ وَاِذا یَرفَعُ اِبرَا ہِیمُ القَوَاعِدَ البقرۃ: 127 ) کی تفسیرین میں ابن کثیر میں تفصیلات یو آئی ہیں۔ قال محمد ابن اسحاق بن یسار فی السیرۃ ولما بلغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس وثلاثین سنۃ اجتعمت قریش لبنیان الکعبۃوکانوا یہمون بذلک یسقفوہا ویہابون ہدمہا وانما کانت رضما فوق القامۃ فاراد وارفعہا وتسقیفہا و ذالک ان نفرا سر قوا کنزالکعبۃ وانما کان الکنز جوف الکعبۃ وکان الذی وجدعندہ الکنز دویک مولی بنی ملیح بن عمرو من خزاعۃ فقطعت قریش یدہ ویزعم الناس ان الذین سرقو ہ وضعوہ عند دویک وکان البحر قد رمی بسفینہ الی جدۃ لرجل من تجار الروم فتحطت فاخذو اخشبہا فاعدوہ لتسقیفہا وکان بمکۃرجل قبطی نجار فہیا لہم فی انفسہم بعض ما یصلحہا و کانت حیۃ تخرج من بئر الکعبۃ التی کانت تطرح فیہا مایہدی لہا کل یوم فتشرف علی جدار الکعبۃ و کان مما یہابون وذالک انہ کان لا یدنو منہا احد الارجزالت وکشت وفتحت فاہا فکانوایہا بونہا فبنیا ہی یوما تشرف علی جدار الکعبۃ کما کانت تصنع بعث اللہ الیہا طائر اِفا ختطفہا فذہب بہا فقالت قریش انا نرجوا ان یکون اللہ قد رضی ما اردنا عند نا عامل رفیق وعندنا خشب وقد کفانا اللہ الحیۃ فلما اجمعو ا امرہم فی ہدمہا وبنیانھا قام ابن وہب بن عمرو فتناول من الکعبۃ حجرا فوثب من یدہ حتی رجع الی موضعہ فقال یا معشر قریش لا تدخلوا فی بنیا نہا من کسبکم الا طیبا لا یدخل فیہا مہر بغی ولا بیع ربا ولا ظلمۃ احد من الناس الی اخرہ۔ خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 35 سال کی تھی کہ قریش نے کعبہ کی از سر نو تعمیر کا فیصلہ اور اس کی دیواروں کو بلند کر کے چھت ڈالنے کی تجویز پاس کی۔ کچھ دنوں کے بعد اور حادثات کے ساتھ ساتھ کعبہ شریف میں چوری کا حادثہ بھی ہوچکا تھا۔ اتفاق سے چور پکڑا گیا، اس کا ہاتھ کاٹا گیا اور تعمیری پروگرام میں مزید پختگی ہوگئی۔ حسن اتفاق سے ہ باقوم نامی ایک رومی تاجر کی کشتی طوفانی موجوں سے ٹکراتی ہوئی جدہ کے کنارے آپڑی اور لکڑی کا سامان ارزاں مل جانے کی اہل مکہ کو تو قع ہوئی۔ ولید بن مغیرہ لکڑی خرید نے کے خیال سے جدہ آیا اور سامان تعمیر کے ساتھ ہی باقوم کو جوفن معماری میں استاد تھا اپنے ساتھ لے گیا۔ ان ہی ایام میں کعبہ شریف کی دیواروں میں ایک خطرناک اژدہا پایا گیا۔ جس کو مارنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی تھی۔ اتفاقاوہ ایک دن دیوار کعبہ پر بیٹھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا پرندہ بھیجا جو اس کو آن کی آن میں اچک کر لے گیا۔ اب قریش نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیت ہمارے ساتھ ہے اس لئے تعمیر کا کام فوراً شروع کردینا چاہئے۔ مگر کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ چھت پر چڑھے اور بیت اللہ کو منہدم کرے ۔ آخر جرات کرکے ابن وہب آگے بڑھا اور ایک پتھر جدا کیا تو وہ پتھر ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اپنی جگہ پر جاٹھہرا۔ اس وقت ابن وہب نے اعلان کیا کہ ناجائز کمائی کا پیسہ ہر گز ہر گز تعمیر میں نہ لگایا جائے۔ پھر ولید بن مغیرہ نے کدال لے کر یہ کہتے ہوئے کہ اے اللہ! تو جانتا ہے ہماری نیت بخیر ہے اس کا ہدم شروع کردیا بنیاد نکل آئی تو اس کے مختلف حصوں کی تعمیر مختلف قبائل پرتقسیم کردی گئی اور کام شروع ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک کار تھے اور کندھوں پتھر رکھ کر لاتے تھے۔ جب حجر اسود رکھنے کا وقت آیا تو قبائل میں اختلاف پڑگیا۔ ہر خاندان اس شرف کے حصول کا دعویدار تھا۔ آخر مرنے مارنے تک نوبت پہنچ گئی، مگرولید بن مغیرہ نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح کو جو شخص بھی سب سے پہلے حرم شریف میں قدم رکھے، اس کے فیصلے کو واجب العمل سمجھوچنانچہ صبح کو سب سے پہلے حرم شریف میں آنے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ سب نے بیک زبان آپ کے فیصلے کو بخوشی ماننے کااعتراف کیا۔ آپ نے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک کے وسط میں رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک سردار کو اس چادر کے اٹھانے میں شریک کرلیا۔ جب وہ چادر گوشہ کعبہ تک پہنچ گئی تو آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر دیوار میں نصب فرمادیا۔ دیواریں اٹھا رہ ہاتھ اونچی کردی گئیں۔ اندرونی فرش بھی پتھر کا بنایا۔ اپنی امتیازی شان قائم رکھنے کے لئے دروازہ قد آدم اونچا رکھا۔ اندرون بیت اللہ شمالاً و جنوباً تین تین ستون قائم کئے۔ جن پر شہتیر ڈال کر چھت پاٹ دی اور رکن عراقی کی طرف اندر ہی اندر زینہ چڑھا یا کہ چھت پر پہنچ سکیں اور شمالی سمت پر پر نالہ لگایا تاکہ چھت کا بارشی پانی حجر میں آکر پڑے۔