‌صحيح البخاري - حدیث 1569

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ اخْتَلَفَ عَلِيٌّ وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهُمَا بِعُسْفَانَ فِي الْمُتْعَةِ فَقَالَ عَلِيٌّ مَا تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَنْهَى عَنْ أَمْرٍ فَعَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1569

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان۔۔۔ ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے عمروبن مرہ نے، ان سے سعید بن مسیب نے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما عسفان آئے تو ان میں باہم تمتع کے سلسلے میں اختلاف ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اس سے آپ کیوں روک رہے ہیں؟ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اپنے حال پر رہنے دو۔ یہ دیکھ کر علی رضی اللہ عنہ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا۔
تشریح : عسفان ایک مقام ہے مکہ سے 36 میل پر یہاں کے تربوز مشہور ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گو خود تمتع نہیں کیا تھا مگر دوسرے لوگوں کو اس کا حکم دیا تو گویا خود کیا۔ یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بحث تو تمتع میں تھی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قران کیا، اس کا کیا مطلب ہے۔ جواب یہ ہے کہ قران اور تمتع دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کو ناجائز سمجھتے تھے۔ عجیب بات ہے قرآن شریف میں صاف یہ موجودہے۔ فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج اور احادیث صحیحہ متعدد صحابہ کی موجود ہیں۔ جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمتع کا حکم دیا۔ پھر ان صاحبوں کا اس سے منع کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اس تمتع سے منع کرتے تھے۔کہ حج کی نیت کر کے حج کا فسخ کردینا اس کو عمرہ بنا دینا۔ مگر یہ بھی صراحتا احادیث سے ثابت ہے۔ بعضوں نے کہا یہ ممانعت بطور تنزیہ کے تھی۔ یعنی تمتع کو فضیلت کے خلاف جانتے تھے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ حدیث سے صاف یہ ثابت ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے۔ حاصل کلام یہ کہ یہ مقام مشکل ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوحضرت علی رضی اللہ عنہما کے مقابل کچھ جواب نہ بن پڑا۔ اس سلسلہ میں حافظ صاحب فرماتے ہیں: فی قصۃ عثمان وعلی من الفوائد اشاعۃ العلم ما عندہ من العلم واظہارہ ومناظرۃ ولاۃ الامور وغیرہم فی تحقیقہ لمن قوی علی ذلک لقصد منا صحۃ المسلمین والبیان بالفضل مع القول وجواز استنباط من النص لان عثمان لم یخف علیہ ان التمتع اوالقران جائز ان وانما نہی عنہما لیعمل بالا فضل کما وقع لعمر ولکن خشی علی ان یحمل غیرہ النہی علی التحریم فاشاع جواز ذالک وکل منہما مجتہد ماجور۔ ( فتح الباری ) یعنی حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے واقعہ مذکورہ میں بہت سے فوائد ہیں۔ مثلاً جو کچھ کسی کے پاس علم ہو اس کی اشاعت کرنا اور اہل اسلام کی خیر خواہی کے لئے امرحق کا اظہار کرنا یہاں تک کہ اگر مسلمان حاکموں سے مناظرہ تک کی نوبت پہنچ جائے تویہ بھی کرڈالنا اور کسی امرحق کا محض بیان ہی نہیں کرنا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھلادینااور نص سے کسی مسئلہ کا استنباط کرنا۔ کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ چیز مخفی نہ تھی حج تمتع اور قران بھی بھی جائز ہیں مگر انہوں نے افضل پر عمل کرنے کا خیال سے تمتع سے منع فرمایا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی واقع ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے اس پر محمول کیا کہ عوام الناس کہیں اس نہ کو تحریم پر محمول نہ کر بیٹھیں۔ اس لیے انہوں نے اس کے جواز کا اظہار فرمایا بلک ہ عمل بھی کر کے دکھلا دیا۔ پس ان میں دونوں ہی مجتہد ہیں اور ہر دو کو اجرو ثواب ملے گا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ کوئی فروعی اختلاف واقع ہو تو اس پر ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہنا چاہئے۔ بلکہ صرف اپنی تحقیق پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ایسے فروعی امور میں اختلاف فہم کا ہوناقدرتی چیزہے۔جس کے لئے صدہا مثالیں سلف صالحین میں موجود ہیں۔ مگر صدافسوس کہ دور حاضرہ کے کم فہم علماءنے ایسے ہی اختلافات کو رائی کا پہاڑ بناکر امت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ اللہم ارحم علی امۃ حبیبک۔ عسفان ایک مقام ہے مکہ سے 36 میل پر یہاں کے تربوز مشہور ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گو خود تمتع نہیں کیا تھا مگر دوسرے لوگوں کو اس کا حکم دیا تو گویا خود کیا۔ یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بحث تو تمتع میں تھی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قران کیا، اس کا کیا مطلب ہے۔ جواب یہ ہے کہ قران اور تمتع دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کو ناجائز سمجھتے تھے۔ عجیب بات ہے قرآن شریف میں صاف یہ موجودہے۔ فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج اور احادیث صحیحہ متعدد صحابہ کی موجود ہیں۔ جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمتع کا حکم دیا۔ پھر ان صاحبوں کا اس سے منع کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اس تمتع سے منع کرتے تھے۔کہ حج کی نیت کر کے حج کا فسخ کردینا اس کو عمرہ بنا دینا۔ مگر یہ بھی صراحتا احادیث سے ثابت ہے۔ بعضوں نے کہا یہ ممانعت بطور تنزیہ کے تھی۔ یعنی تمتع کو فضیلت کے خلاف جانتے تھے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ حدیث سے صاف یہ ثابت ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے۔ حاصل کلام یہ کہ یہ مقام مشکل ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوحضرت علی رضی اللہ عنہما کے مقابل کچھ جواب نہ بن پڑا۔ اس سلسلہ میں حافظ صاحب فرماتے ہیں: فی قصۃ عثمان وعلی من الفوائد اشاعۃ العلم ما عندہ من العلم واظہارہ ومناظرۃ ولاۃ الامور وغیرہم فی تحقیقہ لمن قوی علی ذلک لقصد منا صحۃ المسلمین والبیان بالفضل مع القول وجواز استنباط من النص لان عثمان لم یخف علیہ ان التمتع اوالقران جائز ان وانما نہی عنہما لیعمل بالا فضل کما وقع لعمر ولکن خشی علی ان یحمل غیرہ النہی علی التحریم فاشاع جواز ذالک وکل منہما مجتہد ماجور۔ ( فتح الباری ) یعنی حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے واقعہ مذکورہ میں بہت سے فوائد ہیں۔ مثلاً جو کچھ کسی کے پاس علم ہو اس کی اشاعت کرنا اور اہل اسلام کی خیر خواہی کے لئے امرحق کا اظہار کرنا یہاں تک کہ اگر مسلمان حاکموں سے مناظرہ تک کی نوبت پہنچ جائے تویہ بھی کرڈالنا اور کسی امرحق کا محض بیان ہی نہیں کرنا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھلادینااور نص سے کسی مسئلہ کا استنباط کرنا۔ کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ چیز مخفی نہ تھی حج تمتع اور قران بھی بھی جائز ہیں مگر انہوں نے افضل پر عمل کرنے کا خیال سے تمتع سے منع فرمایا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی واقع ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے اس پر محمول کیا کہ عوام الناس کہیں اس نہ کو تحریم پر محمول نہ کر بیٹھیں۔ اس لیے انہوں نے اس کے جواز کا اظہار فرمایا بلک ہ عمل بھی کر کے دکھلا دیا۔ پس ان میں دونوں ہی مجتہد ہیں اور ہر دو کو اجرو ثواب ملے گا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ کوئی فروعی اختلاف واقع ہو تو اس پر ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہنا چاہئے۔ بلکہ صرف اپنی تحقیق پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ایسے فروعی امور میں اختلاف فہم کا ہوناقدرتی چیزہے۔جس کے لئے صدہا مثالیں سلف صالحین میں موجود ہیں۔ مگر صدافسوس کہ دور حاضرہ کے کم فہم علماءنے ایسے ہی اختلافات کو رائی کا پہاڑ بناکر امت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ اللہم ارحم علی امۃ حبیبک۔