كِتَابُ الحَجِّ بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَمْرَةَ نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ الضُّبَعِيُّ قَالَ تَمَتَّعْتُ فَنَهَانِي نَاسٌ فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَأَمَرَنِي فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ رَجُلًا يَقُولُ لِي حَجٌّ مَبْرُورٌ وَعُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ فَأَخْبَرْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي أَقِمْ عِنْدِي فَأَجْعَلَ لَكَ سَهْمًا مِنْ مَالِي قَالَ شُعْبَةُ فَقُلْتُ لِمَ فَقَالَ لِلرُّؤْيَا الَّتِي رَأَيْتُ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان۔۔۔
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو جمرہ نصربن عمران ضبعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تو کچھ لوگوں نے مجھے منع کیا۔ اس لیے میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے تمتع کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہا ہے ” حج بھی مبرور ہوا اور عمرہ بھی قبول ہوا “ میں نے یہ خواب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سنایا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میرے یہاں قیام کر، میں اپنے پاس سے تمہارے لیے کچھ مقرر کرکے دیا کروں گا۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے ( ابو جمرہ سے ) پوچھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ کیوں کیا تھا؟ ( یعنی مال کس بات پر دینے کے لیے کہا ) انہوں نے بیان کیا کہ اسی خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھا تھا۔
تشریح :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ابو جمرہ کا یہ خواب بہت بھلا معلوم ہوا کیونکہ انہوں نے جو فتویٰ دیا تھا اس کی صحت اس سے نکلی۔ خواب کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔ مگر نیک لوگوں کے خواب جب شرعی امور کی تائید میں ہوں تو ان کے صحیح ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حج تمتع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتلایا اور سنت کے موافق جو کوئی کام کرے وہ ضرور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگا۔ سنت کے موافق تھوڑی سی عبادت بھی خلاف سنت بڑی عبادت سے زیادہ ثواب رکھتی ہے۔ علمائے دین سے منقول ہے کہ ادنیٰ سنت کی پیروی جیسے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹ جانا درجہ میں بڑے ثواب کی چیز ہے۔ یہ ساری نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کفش برداری کی وجہ سے ملتی ہے۔ پروردگار کو کسی کی عبادت کی حاجت نہیں۔ اس کو یہی پسند ہے کہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی چال ڈھال اختیار کی جائے۔
حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ویوخذ منہ اکرام من اخبر المرءبما یسرہ وفرح العالم بموافقتہ والاستسناس بالرویا لموافقۃ الدلیل الشرعی وعرض الرویا علی العالم والتکبیر عند المسرۃ والعمل بالادلۃ الظاہرۃ والتنبیہ علی اختلاف اہل العلم لیعمل بالراجح منہ الموافق للدلیل ( فتح ) یعنی اس سے یہ نکلا کہ اگر کوئی بھائی کسی کے پاس کوئی خوش کرنے والی خبر لائے تو وہ اس کا اکرام کرے اور یہ بھی کہ کسی عالم کی کوئی بات حق کے موافق پڑ جائے تو وہ خوشی کا اظہار کرسکتا ہے اور یہ بھی کہ دلیل شرعی کے موافق کوئی خواب نظر آجائے تو اس سے دلی مسرت حاصل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ خواب کسی عالم کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ خوشی کے وقت نعرہ تکبیر بلند کرناد رست ہے اور یہ بھی کہ ظاہر دلائل پر عمل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ اختلاف کے وقت اہل علم کو تنبیہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اس پر عمل کریں جو دلیل سے راجح ثابت ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ابو جمرہ کا یہ خواب بہت بھلا معلوم ہوا کیونکہ انہوں نے جو فتویٰ دیا تھا اس کی صحت اس سے نکلی۔ خواب کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔ مگر نیک لوگوں کے خواب جب شرعی امور کی تائید میں ہوں تو ان کے صحیح ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حج تمتع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتلایا اور سنت کے موافق جو کوئی کام کرے وہ ضرور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگا۔ سنت کے موافق تھوڑی سی عبادت بھی خلاف سنت بڑی عبادت سے زیادہ ثواب رکھتی ہے۔ علمائے دین سے منقول ہے کہ ادنیٰ سنت کی پیروی جیسے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹ جانا درجہ میں بڑے ثواب کی چیز ہے۔ یہ ساری نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کفش برداری کی وجہ سے ملتی ہے۔ پروردگار کو کسی کی عبادت کی حاجت نہیں۔ اس کو یہی پسند ہے کہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی چال ڈھال اختیار کی جائے۔
حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ویوخذ منہ اکرام من اخبر المرءبما یسرہ وفرح العالم بموافقتہ والاستسناس بالرویا لموافقۃ الدلیل الشرعی وعرض الرویا علی العالم والتکبیر عند المسرۃ والعمل بالادلۃ الظاہرۃ والتنبیہ علی اختلاف اہل العلم لیعمل بالراجح منہ الموافق للدلیل ( فتح ) یعنی اس سے یہ نکلا کہ اگر کوئی بھائی کسی کے پاس کوئی خوش کرنے والی خبر لائے تو وہ اس کا اکرام کرے اور یہ بھی کہ کسی عالم کی کوئی بات حق کے موافق پڑ جائے تو وہ خوشی کا اظہار کرسکتا ہے اور یہ بھی کہ دلیل شرعی کے موافق کوئی خواب نظر آجائے تو اس سے دلی مسرت حاصل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ خواب کسی عالم کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ خوشی کے وقت نعرہ تکبیر بلند کرناد رست ہے اور یہ بھی کہ ظاہر دلائل پر عمل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ اختلاف کے وقت اہل علم کو تنبیہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اس پر عمل کریں جو دلیل سے راجح ثابت ہو۔