‌صحيح البخاري - حدیث 1564

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا وَيَقُولُونَ إِذَا بَرَا الدَّبَرْ وَعَفَا الْأَثَرْ وَانْسَلَخَ صَفَرْ حَلَّتْ الْعُمْرَةُ لِمَنْ اعْتَمَرْ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْحِلِّ قَالَ حِلٌّ كُلُّهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1564

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان۔۔۔ ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاوس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عرب سمجھتے تھے کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنار وئے زمین پر سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ لوگ محرم کو صفر بنالیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ سستالے اور اس پر خوب بال اگ جائیں اور صفر کا مہینہ ختم ہوجائے ( یعنی حج کے ایام گزرجائیں ) تو عمرہ حلال ہوتا ہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ چوتھی کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ بنالیں، یہ حکم ( عرب کے پرانے رواج کی بناپر ) عام صحابہ پر بڑا بھاری گزرا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! عمرہ کرکے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگئی؟ آپ نے فرمایا کہ تمام چیزیں حلال ہوجائیں گی۔
تشریح : ہر آدمی کے دل میں قدیمی رسم ورواج کا بڑا اثر رہتا ہے۔ جاہلیت کے زمانہ سے ان کا یہ اعتقاد چلا آتا تھا کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا بڑا گناہ ہے، اسی وجہ سے آپ کا یہ حکم ان پر گراں گزرا۔ ایمان افروز تقریر! حدیث ہذا کے ذیل حضرت مولانا وحید الزمان صاحب مرحوم نے ایک ایمان افروز تقریر حوالہ قرطاس فرمائی ہے جو اہل بصیرت کے مطالعہ کے قابل ہے۔ صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ ای الحل قال حل کلہ یعنی یا رسول اللہ! عمرہ کرکے ہم کو کیا چیز حلال ہوگی۔ آپ نے فرمایا سب چیزیں یعنی جتنی چیزیں احرام میں منع تھیں وہ سب درست ہوجائیں گی۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ شاید عورتوں سے جماع درست نہ ہو۔ جیسے رمی اور حلق اور قربانی کے بعد سب چیزیں درست ہوجاتی ہیں لیکن جماع درست نہیں ہوتا جب تک طواف الزیارۃ نہ کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں عورتیں بھی درست ہوجائیں گی۔ دوسری روایت میں ہے کہ بعضے صحابہ کو اس میں تامل ہوا اور ان میں سے بعضوں نے یہ بھی کہا کہ کیا ہم حج کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ حال دیکھ کر سخت ملال ہوا کہ میں حکم دیتا ہوں اور یہ اس کی تعمیل میں تامل کرتے ہیں اور چہ میگوئیاں نکالتے ہیں۔ لیکن جو صحابہ قوی الایمان تھے انہوں نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کیا اور عمرہ کرکے احرام کھول ڈالا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ حکم دیں وہیں اللہ کا حکم ہے اور یہ ساری محنت اور مشقت اٹھانے سے غرض کیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی۔ عمرہ کرکے احرام کھول ڈالنا تو کیا چیز ہے۔ آپ جو بھی حکم فرمائیں اس کی تعمیل ہمارے لیے عین سعادت ہے۔ جو حکم آپ دیں اسی میں اللہ کی مرضی ہے گو سارا زمانہ اس کے خلاف بکتا رہے۔ ان کا قول اور خیال ان کو مبارک رہے۔ ہم کو مرتے ہی اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا ہے۔ اگر بالفرض دوسرے مجتہد یا امام یا پیرومرشد درویش قطب پیغمبر علیہ السلام کی پیروی کرنے میں ہم سے خفا ہوجائیں تو ہم کو ان کی خفگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے۔ ہم کو قیامت میں ہمارے پیغمبر کا سایہ عاطفت بس کرتا ہے۔ سارے ولی اور درویش اور غوث اور قطب اور مجتہد اور امام اس بارگاہ کے ایک ادنیٰ کفش بردار ہیں۔ کفش برداروں کو راضی رکھیں یا اپنے سردار کو اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد وعلی اصحابہ وارزقنا شفاعتہ یوم القیامۃ واحشرنا فی زمرۃ اتباعہ وثبتنا علی متابعتہ والعمل بسنتہ امین۔ ہر آدمی کے دل میں قدیمی رسم ورواج کا بڑا اثر رہتا ہے۔ جاہلیت کے زمانہ سے ان کا یہ اعتقاد چلا آتا تھا کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا بڑا گناہ ہے، اسی وجہ سے آپ کا یہ حکم ان پر گراں گزرا۔ ایمان افروز تقریر! حدیث ہذا کے ذیل حضرت مولانا وحید الزمان صاحب مرحوم نے ایک ایمان افروز تقریر حوالہ قرطاس فرمائی ہے جو اہل بصیرت کے مطالعہ کے قابل ہے۔ صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ ای الحل قال حل کلہ یعنی یا رسول اللہ! عمرہ کرکے ہم کو کیا چیز حلال ہوگی۔ آپ نے فرمایا سب چیزیں یعنی جتنی چیزیں احرام میں منع تھیں وہ سب درست ہوجائیں گی۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ شاید عورتوں سے جماع درست نہ ہو۔ جیسے رمی اور حلق اور قربانی کے بعد سب چیزیں درست ہوجاتی ہیں لیکن جماع درست نہیں ہوتا جب تک طواف الزیارۃ نہ کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں عورتیں بھی درست ہوجائیں گی۔ دوسری روایت میں ہے کہ بعضے صحابہ کو اس میں تامل ہوا اور ان میں سے بعضوں نے یہ بھی کہا کہ کیا ہم حج کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ حال دیکھ کر سخت ملال ہوا کہ میں حکم دیتا ہوں اور یہ اس کی تعمیل میں تامل کرتے ہیں اور چہ میگوئیاں نکالتے ہیں۔ لیکن جو صحابہ قوی الایمان تھے انہوں نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کیا اور عمرہ کرکے احرام کھول ڈالا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ حکم دیں وہیں اللہ کا حکم ہے اور یہ ساری محنت اور مشقت اٹھانے سے غرض کیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی۔ عمرہ کرکے احرام کھول ڈالنا تو کیا چیز ہے۔ آپ جو بھی حکم فرمائیں اس کی تعمیل ہمارے لیے عین سعادت ہے۔ جو حکم آپ دیں اسی میں اللہ کی مرضی ہے گو سارا زمانہ اس کے خلاف بکتا رہے۔ ان کا قول اور خیال ان کو مبارک رہے۔ ہم کو مرتے ہی اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا ہے۔ اگر بالفرض دوسرے مجتہد یا امام یا پیرومرشد درویش قطب پیغمبر علیہ السلام کی پیروی کرنے میں ہم سے خفا ہوجائیں تو ہم کو ان کی خفگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے۔ ہم کو قیامت میں ہمارے پیغمبر کا سایہ عاطفت بس کرتا ہے۔ سارے ولی اور درویش اور غوث اور قطب اور مجتہد اور امام اس بارگاہ کے ایک ادنیٰ کفش بردار ہیں۔ کفش برداروں کو راضی رکھیں یا اپنے سردار کو اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد وعلی اصحابہ وارزقنا شفاعتہ یوم القیامۃ واحشرنا فی زمرۃ اتباعہ وثبتنا علی متابعتہ والعمل بسنتہ امین۔