كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَنْ أَهَلَّ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ ﷺ كَإِهْلاَلِ النَّبِيِّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْمٍ بِالْيَمَنِ فَجِئْتُ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ فَقَالَ بِمَا أَهْلَلْتَ قُلْتُ أَهْلَلْتُ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَلْ مَعَكَ مِنْ هَدْيٍ قُلْتُ لَا فَأَمَرَنِي فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَمَرَنِي فَأَحْلَلْتُ فَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَطَتْنِي أَوْ غَسَلَتْ رَأْسِي فَقَدِمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُنَا بِالتَّمَامِ قَالَ اللَّهُ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: جس نے احرام میں یہ نیت کی ج۔۔۔
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری نے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری قوم کے پاس یمن بھیجاتھا۔ جب ( حجۃ الوداع کے موقع پر ) میں آیا تو آپ سے بطحاءمیں ملاقات ہوئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کس کا احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا باندھا ہو آپ نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ قربانی ہے؟ میں نے عرض کی کہ نہیں، اس لئے آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں بیت اللہ کا طواف او رصفا اور مر وہ کی سعی کروں۔ اس کے بعد آپ نے احرام کھول دینے کے لئے فرمایا۔ چنانچہ میںاپنی قوم کی ایک خاتون کے پاس آیا۔ انہوں نے میرے سرکا کنگھا کیا یا میراسرد ھویا۔ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اللہ کی کتاب پر عمل کریں تو وہ یہ حکم دیتی ہے کہ حج اور عمرہ پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’ ’اور حج اور عمرہ پورا کرو اللہ کی رضا کے لئے۔ “ اور اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک آپ نے قربانی سے فراغت نہیں حاصل فرمائی۔
تشریح :
حضرت عمررضی اللہ عنہ کی رائے اس باب میں درست نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا اس کی وجہ بھی آپ نے خود بیان فرمائی تھی کہ آپ کے ساتھ ہدیٰ تھی۔جن کے ساتھ ہدیٰ نہ تھی ان کا احرام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلوادیا۔ پس جہاں صاف صریح حدیث نبوی موجود ہو وہاں کسی کی بھی رائے قبول نہیں کی جاسکتی خواہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرات مقلدین کو یہاں غور کرنا چاہئے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے خلیفہ راشدجن کی پیروی کرنے کا خاص حکم نبوی ہے اقتدو بالذین من بعدی ابی بکر وعمر حدیث کے خلاف قابل اقتداءنہ ٹھہرے تو اور کسی امام یا مجتہد کی کیا بساط ہے۔ ( وحیدی )
حضرت عمررضی اللہ عنہ کی رائے اس باب میں درست نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا اس کی وجہ بھی آپ نے خود بیان فرمائی تھی کہ آپ کے ساتھ ہدیٰ تھی۔جن کے ساتھ ہدیٰ نہ تھی ان کا احرام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلوادیا۔ پس جہاں صاف صریح حدیث نبوی موجود ہو وہاں کسی کی بھی رائے قبول نہیں کی جاسکتی خواہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرات مقلدین کو یہاں غور کرنا چاہئے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے خلیفہ راشدجن کی پیروی کرنے کا خاص حکم نبوی ہے اقتدو بالذین من بعدی ابی بکر وعمر حدیث کے خلاف قابل اقتداءنہ ٹھہرے تو اور کسی امام یا مجتہد کی کیا بساط ہے۔ ( وحیدی )