‌صحيح البخاري - حدیث 1542

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَا لاَ يَلْبَسُ المُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنْ الثِّيَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَلْبَسُ الْقُمُصَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَحَدٌ لَا يَجِدُ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا مِنْ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ أَوْ وَرْسٌ قال ابو عبد اللہ یغسل المحرم راسه ولا يترجل ولا يحك جسده و يلقى القمل من راسه و جسده فى الارض

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1542

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: محرم کو کونسے کپڑے پہننا درست نہیں ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبردی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! محرم کو کس طرح کا کپڑا پہننا چاہئے؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ کرتہ پہنے نہ عمامہ باندھے نہ پاجامہ پہنے نہ باران کوٹ نہ موزے۔ لیکن اگر اس کے پاس جوتی نہ ہو تو وہ موزے اس وقت پہن سکتاہے جب ٹخنوں کے نیچے سے ان کو کاٹ لیا ہو۔ ( اور احرام میں ) کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یاورس لگا ہوا ہو۔ ابو عبداللہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ محرم اپنا سردھوسکتاہے لیکن کنگھا نہ کرے۔ بدن بھی نہ کھجلانا چاہئے او جوں سر اور بدن سے نکال کر زمین پر ڈالی جاسکتی ہے۔
تشریح : ورس ایک زرد گھاس ہوتی ہے خوشبودار اوراس پرسب کا اتفاق ہے کہ محرم کو یہ کپڑے پہننے ناجائزہیں۔ ہر سلا ہوا کپڑا پہننا مرد کو احرام میں ناجائز ہے لیکن عورتوں کو درست ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایک لنگی اور ایک چادر، مرد کا یہی احرام ہے۔ یہ ایک فقیری لباس ہے، اب یہ حاجی اللہ کا فقیربن گیا، اس کو اس لباس فقر کا تازندگی لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ا س موقع پر کوئی کتنا ہی بڑا بادشاہ مالدار کیوں نہ ہو سب کو یہی لباس زیب تن کر کے مساوات انسانی کا یک بہترین نمونہ پیش کرنا ہے اور ہر امیر وغریب کو ایک ہی سطح پر آجانا ہے تاکہ وحدت انسانی کا ظاہر اًاور باطناً بہتر مظاہرہ ہوسکے اور امراءکے دماغوں سے نخوت امیری نکل سکے اور غرباءکو تسلی واطمینان ہوسکے۔ الغرض لباس احرام کے اندر بہت سے روحانی ومادی وسماجی فوائد مضمر ہیں مگر ان کا مطالعہ کرنے کے لئے دیدہ بصیرت کی ضرورت ہے اور یہ چیز ہر کسی کو نہیں ملتی۔انما یتذکر اولو الالباب۔ ورس ایک زرد گھاس ہوتی ہے خوشبودار اوراس پرسب کا اتفاق ہے کہ محرم کو یہ کپڑے پہننے ناجائزہیں۔ ہر سلا ہوا کپڑا پہننا مرد کو احرام میں ناجائز ہے لیکن عورتوں کو درست ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایک لنگی اور ایک چادر، مرد کا یہی احرام ہے۔ یہ ایک فقیری لباس ہے، اب یہ حاجی اللہ کا فقیربن گیا، اس کو اس لباس فقر کا تازندگی لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ا س موقع پر کوئی کتنا ہی بڑا بادشاہ مالدار کیوں نہ ہو سب کو یہی لباس زیب تن کر کے مساوات انسانی کا یک بہترین نمونہ پیش کرنا ہے اور ہر امیر وغریب کو ایک ہی سطح پر آجانا ہے تاکہ وحدت انسانی کا ظاہر اًاور باطناً بہتر مظاہرہ ہوسکے اور امراءکے دماغوں سے نخوت امیری نکل سکے اور غرباءکو تسلی واطمینان ہوسکے۔ الغرض لباس احرام کے اندر بہت سے روحانی ومادی وسماجی فوائد مضمر ہیں مگر ان کا مطالعہ کرنے کے لئے دیدہ بصیرت کی ضرورت ہے اور یہ چیز ہر کسی کو نہیں ملتی۔انما یتذکر اولو الالباب۔