كِتَابُ الحَجِّ بَابٌ: ذَاتُ عِرْقٍ لِأهْلِ العِرَاقِ صحيح حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا فُتِحَ هَذَانِ الْمِصْرَانِ أَتَوْا عُمَرَ فَقَالُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّ لِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا وَهُوَ جَوْرٌ عَنْ طَرِيقِنَا وَإِنَّا إِنْ أَرَدْنَا قَرْنًا شَقَّ عَلَيْنَا قَالَ فَانْظُرُوا حَذْوَهَا مِنْ طَرِيقِكُمْ فَحَدَّ لَهُمْ ذَاتَ عِرْقٍ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: عراق والوں کے احرام باندھنے کی جگہ۔۔۔
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب یہ دوشہر ( بصرہ اور کوفہ ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہا کہ یا امیرالمومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قراردی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لئے بڑی دشواری ہوگی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھرتم لوگ اپنے راستے میں اس کے برابر کوئی جگہ تجویز کرلو۔ چنانچہ ان کے لئے ذات عرق کی تعیین کردی۔
تشریح :
یہ مقام مکہ شریف سے بیالیس میل پر ہے۔۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ مقام اپنی رائے اور اجتہاد سے مقرر کیا مگر جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عراق والوں کا میقات ذات عراق مروی ہے گو اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے۔ اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ اگر کوئی مکہ میں حج یا عمرے کی نیت سے اور کسی راستے سے آئے جس میں کوئی میقات راہ میں نہ پڑے تو جس میقات کے مقابل پہنچے وہاں سے احرام باندھ لے۔ بعضوں نے کہا کہ اگر کوئی میقات کی برابری معلوم نہ ہو سو سکے تو جو میقات سب سے دور ہے اتنی دور سے احرام باندھ لے۔ میں کہتا ہوں ابوداؤد اور نسائی نے باسناد صحیح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عراق والوں کے لئے ذات عرق مقرر کیا اور احمد اور دار قطنی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے بھی ایسا ہی نکالا ہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہا حدیث کے مطابق پڑا ( مولانا وحیدی الزماں )
اس بارے میں حافظ ابن حجر نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں لکن لما سن عمر ذات عرق وتبعہ علیہ الصحابۃ واستمر علیہ العمل کان اولی بالا تباع یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے مقرر فرمادیا اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا تو اب اس کی اتباع ہی بہتر ہے۔
یہ مقام مکہ شریف سے بیالیس میل پر ہے۔۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ مقام اپنی رائے اور اجتہاد سے مقرر کیا مگر جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عراق والوں کا میقات ذات عراق مروی ہے گو اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے۔ اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ اگر کوئی مکہ میں حج یا عمرے کی نیت سے اور کسی راستے سے آئے جس میں کوئی میقات راہ میں نہ پڑے تو جس میقات کے مقابل پہنچے وہاں سے احرام باندھ لے۔ بعضوں نے کہا کہ اگر کوئی میقات کی برابری معلوم نہ ہو سو سکے تو جو میقات سب سے دور ہے اتنی دور سے احرام باندھ لے۔ میں کہتا ہوں ابوداؤد اور نسائی نے باسناد صحیح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عراق والوں کے لئے ذات عرق مقرر کیا اور احمد اور دار قطنی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے بھی ایسا ہی نکالا ہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہا حدیث کے مطابق پڑا ( مولانا وحیدی الزماں )
اس بارے میں حافظ ابن حجر نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں لکن لما سن عمر ذات عرق وتبعہ علیہ الصحابۃ واستمر علیہ العمل کان اولی بالا تباع یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے مقرر فرمادیا اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا تو اب اس کی اتباع ہی بہتر ہے۔