‌صحيح البخاري - حدیث 1523

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ عَنْ وَرْقَاءَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ أَهْلُ الْيَمَنِ يَحُجُّونَ وَلَا يَتَزَوَّدُونَ وَيَقُولُونَ نَحْنُ الْمُتَوَكِّلُونَ فَإِذَا قَدِمُوا مَكَّةَ سَأَلُوا النَّاسَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1523

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: توشہ ساتھ لے لو اور بہتر توشہ تقویٰ ہے ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیااور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یمن کے لوگ راستہ کا خرچ ساتھ لائے بغیر حج کے لئے آجاتے تھے۔ کہتے تو یہ تھے کہ ہم توکل کرتے ہیں لیکن جب مکہ آتے تو لوگوں سے مانگنے لگتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” اور توشہ لے لیا کرو کہ سب سے بہتر توشہ تو تقویٰ ہی ہے۔ “ اس کو ابن عیینہ نے عمرو سے بواسطہ عکرمہ مرسلاً نقل کیاہے۔
تشریح : مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرے اور جس صحابی سے وہ نقل کررہا ہے اس کا نام نہ لے۔ صحابی کا نام لینے سے یہی حدیث پھر مرفوع کہلاتی ہے جو درجہ قبولیت میں خاص مقام رکھتی ہے۔ یعنی صحیح مرفوع حدیث نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آیت شریفہ میں تقویٰ سے مراد مانگنے سے بچنا اور اپنے مصارف سفر کا خود انتطام کرنا مراد ہے اور یہ بھی کہ اس سفر سے بھی زیادہ اہم سفر آخرت درپیش ہے۔ اس کا توشہ بھی تقویٰ پر ہیزگاری گناہوں سے بچنا اور پاک زندگی گزارنا ہے۔ بہ سلسلہ حج تقویٰ کی تلقین یہی حج کا ماحصل ہے۔ آج بھی جولوگ حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں، انہوں نے حج کا مقصد ہی نہیں سمجھا۔ قال المہلب فی ہذا الحدیث من الفقۃ ان ترک السوال من التقویٰ ویویدہ ان اللہ مدح لم یسئل الناس الحافا فان قولہ فان خیرالزاد التقویٰ ای تزودوا واتقوا اذی الناس بسوالکم ایاہم والا ثم فی ذلک ( فتح ) یعنی مہلب نے کہا کہ اس حدیث سے یہ سمجھا گیا کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔ خیرالزاد التقویٰ کا مطلب یہ کہ ساتھ میں توشہ اور سوال کر کر کے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور سوال کرنے کے گناہ سے بچو۔ مانگنے والا متوکل نہیں ہوسکتا۔ حقیقی توکل یہی ہے کہ کسی سے بھی کسی چیز میں مدد نہ مانگی جائے اور اسباب مہیا کرنے کے باوجود بھی اسباب سے قطع نظر کرنا یہ توکل سے ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ والے سے فرمایا تھا کہ اسے مضبوط باندھ پھر اللہ پر بھروسہ رکھ گفت پیغمبر باواز بلند برتوکل زانوئے اشتربہ بند مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرے اور جس صحابی سے وہ نقل کررہا ہے اس کا نام نہ لے۔ صحابی کا نام لینے سے یہی حدیث پھر مرفوع کہلاتی ہے جو درجہ قبولیت میں خاص مقام رکھتی ہے۔ یعنی صحیح مرفوع حدیث نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آیت شریفہ میں تقویٰ سے مراد مانگنے سے بچنا اور اپنے مصارف سفر کا خود انتطام کرنا مراد ہے اور یہ بھی کہ اس سفر سے بھی زیادہ اہم سفر آخرت درپیش ہے۔ اس کا توشہ بھی تقویٰ پر ہیزگاری گناہوں سے بچنا اور پاک زندگی گزارنا ہے۔ بہ سلسلہ حج تقویٰ کی تلقین یہی حج کا ماحصل ہے۔ آج بھی جولوگ حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں، انہوں نے حج کا مقصد ہی نہیں سمجھا۔ قال المہلب فی ہذا الحدیث من الفقۃ ان ترک السوال من التقویٰ ویویدہ ان اللہ مدح لم یسئل الناس الحافا فان قولہ فان خیرالزاد التقویٰ ای تزودوا واتقوا اذی الناس بسوالکم ایاہم والا ثم فی ذلک ( فتح ) یعنی مہلب نے کہا کہ اس حدیث سے یہ سمجھا گیا کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔ خیرالزاد التقویٰ کا مطلب یہ کہ ساتھ میں توشہ اور سوال کر کر کے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور سوال کرنے کے گناہ سے بچو۔ مانگنے والا متوکل نہیں ہوسکتا۔ حقیقی توکل یہی ہے کہ کسی سے بھی کسی چیز میں مدد نہ مانگی جائے اور اسباب مہیا کرنے کے باوجود بھی اسباب سے قطع نظر کرنا یہ توکل سے ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ والے سے فرمایا تھا کہ اسے مضبوط باندھ پھر اللہ پر بھروسہ رکھ گفت پیغمبر باواز بلند برتوکل زانوئے اشتربہ بند