‌صحيح البخاري - حدیث 1519

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ فَضْلِ الحَجِّ المَبْرُورِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ قِيلَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قِيلَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ حَجٌّ مَبْرُورٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1519

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: حج مبرور کی فضلیت کا بیان ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اوران سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج مبرور۔
تشریح : مبرور لفظ بر سے بنا ہے جس کے معنی نیکی کے ہیں۔ قرآن مجید میں لیس البر میں یعنی لفظ ہے۔ یہ وہ حج ہے جس میں ازاول تا آخر نیکیاں ہی نیکیاں کی گئی ہوں۔ گناہ کا شائبہ بھی نہ ہو۔ ایسا حج قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ عند اللہ یہی حج مقبول ہے پھر ایسا حاجی عمر بھر ایک مثالی مسلمان بن جاتا ہے اور اس کی زندگی سراپا اسلام اور ایمان کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ اگر ایسا حج نصیب نہیں تو وہی مثال ہوگی خر عیسیٰ گر بمکہ رودچوں بیاد ہنوز خرباشند حج مبرور کی تعریف میں حافظ فرماتے ہیں الذی لا یخالطہ شئی من الاثم یعنی حج مبرور وہ ہے جس میں گناہ کا مطلقاً دخل نہ ہو۔ حدیث جابر میں ہے کھانا کھلانا اور سلام پھیلانا جو حاجی اپنا شعار بنالے اس کا حج حج مبرور ہے۔ یہی حج وہ ہے جس سے گذشتہ صغیرہ وکبیرہ جملہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور ایسا حاجی اس حالت میں لوٹتا ہے گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ پاک ہر حاجی کو ایسا ہی حج نصیب کرے۔ مگر افسوس ہے کہ آج کی مادی ترقیات نے، نئی نئی ایجادات نے روحانی عالم کو بالکل مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ بیشتر حاجی مکہ شریف کے بازاروں میں جب مغربی سازوسامان دیکھتے ہیں، ان کی آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں وہ جائز اور ناجائز سے بلا ہو کر ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیں کہ واپس اپنے وطن آکر حاجیوں کی بدنامی کا موجب بنتے ہیں۔ حکومت کی نظروں میں ذلیل ہوتے ہیں۔ الامن رحم اللہ۔ مبرور لفظ بر سے بنا ہے جس کے معنی نیکی کے ہیں۔ قرآن مجید میں لیس البر میں یعنی لفظ ہے۔ یہ وہ حج ہے جس میں ازاول تا آخر نیکیاں ہی نیکیاں کی گئی ہوں۔ گناہ کا شائبہ بھی نہ ہو۔ ایسا حج قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ عند اللہ یہی حج مقبول ہے پھر ایسا حاجی عمر بھر ایک مثالی مسلمان بن جاتا ہے اور اس کی زندگی سراپا اسلام اور ایمان کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ اگر ایسا حج نصیب نہیں تو وہی مثال ہوگی خر عیسیٰ گر بمکہ رودچوں بیاد ہنوز خرباشند حج مبرور کی تعریف میں حافظ فرماتے ہیں الذی لا یخالطہ شئی من الاثم یعنی حج مبرور وہ ہے جس میں گناہ کا مطلقاً دخل نہ ہو۔ حدیث جابر میں ہے کھانا کھلانا اور سلام پھیلانا جو حاجی اپنا شعار بنالے اس کا حج حج مبرور ہے۔ یہی حج وہ ہے جس سے گذشتہ صغیرہ وکبیرہ جملہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور ایسا حاجی اس حالت میں لوٹتا ہے گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ پاک ہر حاجی کو ایسا ہی حج نصیب کرے۔ مگر افسوس ہے کہ آج کی مادی ترقیات نے، نئی نئی ایجادات نے روحانی عالم کو بالکل مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ بیشتر حاجی مکہ شریف کے بازاروں میں جب مغربی سازوسامان دیکھتے ہیں، ان کی آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں وہ جائز اور ناجائز سے بلا ہو کر ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیں کہ واپس اپنے وطن آکر حاجیوں کی بدنامی کا موجب بنتے ہیں۔ حکومت کی نظروں میں ذلیل ہوتے ہیں۔ الامن رحم اللہ۔