‌صحيح البخاري - حدیث 1518

كِتَابُ الحَجِّ بَابُ الحَجِّ عَلَى الرَّحْلِ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا أَيْمَنُ بْنُ نَابِلٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْتَمَرْتُمْ وَلَمْ أَعْتَمِرْ فَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ اذْهَبْ بِأُخْتِكَ فَأَعْمِرْهَا مِنْ التَّنْعِيمِ فَأَحْقَبَهَا عَلَى نَاقَةٍ فَاعْتَمَرَتْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1518

کتاب: حج کے مسائل کا بیان باب: پالان پر سوار ہوکر حج کرنا ہم سے عمر وبن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایمن بن نابل نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے قاسم بن محمدنے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ انھوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ لوگوں نے تو عمرہ کرلیا لیکن میں نہ کرسکی۔ اس لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبدالرحمن اپنی بہن کو لے جا اور انہیں تنعیم سے عمرہ کرالا۔ چنانچہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھا لیا اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ ادا کیا۔
تشریح : آنحضرت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے تنعیم بھیجا۔ اس بارے میں حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میقاتش حل است ازبرائے مکی بحدیث صحیحین وغیرہما کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمن بن ابی بکر را امر فرمود باعائشۃ بسوئے تنعیم برآید ووئے ازانجا عمرہ برآردوہر کہ آنرااز مسکن ومکہ صحیح گوید جواب دادہ کہ این امر بنابر تطیب خاطر عائشہ بو د تا ازحل بکہ درآید چنانکہ دیگر ازواج کردنداواین واجب خلاف ظاہر است۔ ہاصل آنکہ ازوے صلی اللہ علیہ وسلم تعین میقات عمرہ واقع نشدہ وتعیین میقات حج ازبرائے اہل ہر جست ثابت گشتہ پس اگر عمرہ دریں مواقیت ہمچوحج باشد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درحدیث صحیح گفتہ فمن کان دونہم فمہلہ من اہلہ وکذلک اہل مکۃ یہلون منہا واین در صحیحین است بلکہ درحقیقت ابن عباس بعد ذکر مواقیت اہل ہر محل تصریح آمدہ با آنکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرمود حدیث فہن لا ہلہن ولمن اتی علیہن من غیر اہلھن لمن کان یرید الحج والعمرۃ واین حدیث درصحیحین است ودران تصریح بعمرہ است۔ ( بدور الاہلہ، ص:152 ) اہل مکہ کے لئے عمرہ کا میقات حل ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ وہ اپنی بہن عائشہ کو تنعیم لے جائیں اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کرآئیں اور جن علماءنے یہ کہا کہ عمرہ کا میقات اپنا گھر اور مکہ ہی ہے، انہوںنے اس حدیث کے بارے میں جواب دیا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی دل جوئی کے لئے فرمایا تھا تاکہ وہ حل سے کر آئیںجیسا کہ دیگر ازواج مطہرات نے کیا تھا اور یہ جواب ظاہر کے خلاف ہے، حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے لیے میقات کا تعیین واقع نہیں ہوا اور میقات حج کا تعیین ہر جہت والوں کے لئے ثابت ہواہے۔ پس اگر عمرہ ان مواقیت میں حج کی مانند ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث صحیح میں فرمایاہے کہ جو لوگ میقات کے اندر ہوں ان کا میقات ان کا گھر ہے وہ اپنے گھروں سے احرام باندھیں اسی طرح مکہ والے بھی مکہ ہی سے احرام باندھیں اور یہ حدیث صحیحین میں ہے۔ بلکہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں ہرجگہ کی میقات کا ذکر کرنے کے بعد صراحتاً آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس یہ میقات ان لوگوں کے لئے ہیں جو ان کے اہل ہیں اور جو بھی ادھر سے گزریں حالانکہ وہ یہاں کے باشندے نہ ہوں۔ پھر ان کے لئے میقات یہی مقامات ہیں جو بھی حج اور عمرے کاارادہ کر کے آئیں۔ پس اس حدیث میں صراحتاً عمرہ کا لفظ موجود ہے۔ نواب مرحوم کا اشارہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب حج کا احرام مکہ والے مکہ ہی سے باندھیں گے اور ان کے گھر ہی ان کے میقات ہیں تو عمرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ کیونکہ حدیث ہذا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کا ایک ہی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ بہ سلسلہ میقات جس قدر احکامات حج کے لئے ہیں وہی سب عمرہ کے لئے ہیں۔ ان کی بنا پر صرف مکہ شریف سے عمرہ کا احرام باندھنے والوں کے لئے تنعیم جانا ضروری نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ آنحضرت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے تنعیم بھیجا۔ اس بارے میں حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میقاتش حل است ازبرائے مکی بحدیث صحیحین وغیرہما کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمن بن ابی بکر را امر فرمود باعائشۃ بسوئے تنعیم برآید ووئے ازانجا عمرہ برآردوہر کہ آنرااز مسکن ومکہ صحیح گوید جواب دادہ کہ این امر بنابر تطیب خاطر عائشہ بو د تا ازحل بکہ درآید چنانکہ دیگر ازواج کردنداواین واجب خلاف ظاہر است۔ ہاصل آنکہ ازوے صلی اللہ علیہ وسلم تعین میقات عمرہ واقع نشدہ وتعیین میقات حج ازبرائے اہل ہر جست ثابت گشتہ پس اگر عمرہ دریں مواقیت ہمچوحج باشد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درحدیث صحیح گفتہ فمن کان دونہم فمہلہ من اہلہ وکذلک اہل مکۃ یہلون منہا واین در صحیحین است بلکہ درحقیقت ابن عباس بعد ذکر مواقیت اہل ہر محل تصریح آمدہ با آنکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرمود حدیث فہن لا ہلہن ولمن اتی علیہن من غیر اہلھن لمن کان یرید الحج والعمرۃ واین حدیث درصحیحین است ودران تصریح بعمرہ است۔ ( بدور الاہلہ، ص:152 ) اہل مکہ کے لئے عمرہ کا میقات حل ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ وہ اپنی بہن عائشہ کو تنعیم لے جائیں اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کرآئیں اور جن علماءنے یہ کہا کہ عمرہ کا میقات اپنا گھر اور مکہ ہی ہے، انہوںنے اس حدیث کے بارے میں جواب دیا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی دل جوئی کے لئے فرمایا تھا تاکہ وہ حل سے کر آئیںجیسا کہ دیگر ازواج مطہرات نے کیا تھا اور یہ جواب ظاہر کے خلاف ہے، حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے لیے میقات کا تعیین واقع نہیں ہوا اور میقات حج کا تعیین ہر جہت والوں کے لئے ثابت ہواہے۔ پس اگر عمرہ ان مواقیت میں حج کی مانند ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث صحیح میں فرمایاہے کہ جو لوگ میقات کے اندر ہوں ان کا میقات ان کا گھر ہے وہ اپنے گھروں سے احرام باندھیں اسی طرح مکہ والے بھی مکہ ہی سے احرام باندھیں اور یہ حدیث صحیحین میں ہے۔ بلکہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں ہرجگہ کی میقات کا ذکر کرنے کے بعد صراحتاً آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس یہ میقات ان لوگوں کے لئے ہیں جو ان کے اہل ہیں اور جو بھی ادھر سے گزریں حالانکہ وہ یہاں کے باشندے نہ ہوں۔ پھر ان کے لئے میقات یہی مقامات ہیں جو بھی حج اور عمرے کاارادہ کر کے آئیں۔ پس اس حدیث میں صراحتاً عمرہ کا لفظ موجود ہے۔ نواب مرحوم کا اشارہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب حج کا احرام مکہ والے مکہ ہی سے باندھیں گے اور ان کے گھر ہی ان کے میقات ہیں تو عمرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ کیونکہ حدیث ہذا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کا ایک ہی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ بہ سلسلہ میقات جس قدر احکامات حج کے لئے ہیں وہی سب عمرہ کے لئے ہیں۔ ان کی بنا پر صرف مکہ شریف سے عمرہ کا احرام باندھنے والوں کے لئے تنعیم جانا ضروری نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔